جِِس دِن سے پائے نسبت رکھا تری گلی میں

الف نظامی

لائبریرین
جِِس دِن سے پائے نسبت رکھا تری گلی میں
دیکھا پھر اہلِ دِل نے کیا کیا تری گلی میں

جب بھی کِیا ہے مَیں نے سجدہ تری گلی میں
خود کھنچ کے آگیا ہے کعبہ تری گلی میں

آتا نہیں ہے تب تک دِل کو قرار میرے
لگتا نہیں ہے جب تک پھیرا تری گلی میں

اوروں کوہوں مبارک رنگینیاں جہاں کی
ہم نے تو جو بھی دیکھا، دیکھا تری گلی میں

شاہ و گدا نے پائی خیرات در سے تیرے
خالی رہا ہے دامن کِس کا تری گلی میں

تیرا کرم صدائیں دیتا ہے عاصیوں کو
بہتا ہے رحمتوں کا دریا تری گلی میں

قِسمت ہے اپنی اپنی پاتے ہیں پانے والے
بٹتا ہے پنج تنؑ کا صدقہ تری گلی میں

اب صِرف تُو رہے گا اپنی گلی کی رونق
آئے گا اب نہ کوئی تُجھ سا تری گلی میں

بیٹھا ہوا ہوں اب تک لے کر ترا سہارا
تُجھ بِن نہیں ہے کوئی میرا، تری گلی میں

دِل ہیں کہ لُٹ رہے ہیں سَر ہیں کہ جُھک رہے ہیں
عالم ہے بے خُودی کا کیسا تری گلی میں

ہوجائے چشمِ رحمت اب تو نصیرؔ پر بھی
کب سے پڑا ہوا ہے آقا تری گلی میں

(سید نصیر الدین نصیر)​
 
چشمِ رحمت بکشُا سوئے من اندازِ نظر،
اےقُریشی لقب و ہاشمی و مُطَّلبی۔

ما ہمہ تشنہ لبانیم و تو آبِ حیات،
رحم فرما کہ زحد می گزرد تشنہ لبی۔
 
Top