ناصر کاظمی

  1. فرخ منظور

    ناصر کاظمی کسے دیکھا کہاں دیکھا نہ جائے - ناصر کاظمی

    کسے دیکھا کہاں دیکھا نہ جائے وہ دیکھا ہے جہاں دیکھا نہ جائے میری بربادیوں پر رونے والے تجھے محو فغاں دیکھا نہ جائے زمیں لوگوں سے خالی ہو رہی ہے یہ رنگ آسماں دیکھا نہ جائے سفر ہے اور غربت کا سفر ہے غم صد کارواں دیکھا نہ جائے کہیں آگ اور کہیں لاشوں کے انبار بس اے دور زماں دیکھا نہ...
  2. فرخ منظور

    ناصر کاظمی وہ دلنواز ہے لیکن نظر شناس نہیں - ناصر کاظمی

    وہ دلنواز ہے لیکن نظر شناس نہیں مرا علاج مرے چارہ گر کے پاس نہیں تڑپ رہے ہیں زباں پر کئی سوال مگر مرے لیے کوئی شایانِ التماس نہیں ترے جلو میں بھی دل کانپ کانپ اٹھتا ہے مرے مزاج کو آسودگی بھی راس نہیں کبھی کبھی جو ترے قرب میں گزارے تھے اب ان دنوں کا تصور بھی میرے پاس نہیں گزر رہے...
  3. خ

    ناصر کاظمی محرومِ خواب دیدۂ حیراں‌ نہ تھا کبھی (ناصر کاظمی)

    محرومِ خواب دیدۂ حیراں نہ تھا کبھی تیرا یہ رنگ اے شبِ ہجراں نہ تھا کبھی تھا لطفِ وصل اور کبھی افسونِ انتظار یوں دردِ ہجر سلسلہ جنباں نہ تھا کبھی پرساں نہ تھا کوئ تو یہ رسوائیاں نہ تھیں ظاہر کسی پہ حالِ پریشاں نہ تھا کبھی ہر چند غم بھی تےھا مگر احساسِ غم نہ تھا درماں نہ تھا تو ماتمِ درماں...
  4. زرقا مفتی

    ناصر کاظمی طاؤس بولتا ہو تو جنگل ہرا بھی ہو

    آرائشِ خیال بھی ہو، دل کشا بھی ہو وہ درد اب کہاں جسے جی چاہتا بھی ہو یہ کیا کہ روز ایک سا غم، ایک سی امید اس رنجِ بےخمار کی اب انتہا بھی ہو یہ کیا کہ ایک طور سے گزرے تمام عمر جی چاہتا ہے اب کوئی تیرے سوا بھی ہو ٹوٹے کبھی تو حسن شب و روز کا طلسم اتنے ہجوم میں کوئی چہرہ نیا بھی ہو...
  5. زونی

    ناصر کاظمی سفرِ منزلِ شب یاد نہیں (ناصر کاظمی)

    سفرِ منزلِ شب یاد نہیں لوگ رخصت ہوئے کب یاد نہیں دل میں ہر وقت چبھن رہتی تھی تھی مجھے کس کی طلب یاد نہیں وہ ستارہ تھی کہ شبنم تھی کہ پھول اک صورت تھی عجب یاد نہیں ایسا الجھا ہوں غمِ دنیا میں ایک بھی خوابِ طرب یاد نہیں بھولتے جاتے ہیں ماضی کے دیار...
  6. ع

    ناصر کاظمی تنہائی کا دکھ گہرا تھا - ناصر کاظمی

    تنہائی تنہائی کا دکھ گہرا تھا میں دریا دریا رویا تھا اک لہر ہی نہ سنبھلی ورنہ میں طوفانوں سے کھیلا تھا تنہائی کا تنہا سایہ دیر سے میرے ساتھ لگا تھا چھوڑ گئے جب سارے ساتھی تنہائی نے ساتھ دیا تھا سوکھ گئی جب سکھ کی ڈالی تنہائی کا پھول کھِلا تھا تنہائی میں یادِ خدا تھی تنہائی میں خوفِ خدا تھا...
  7. arshadmm

    ناصر کاظمی کچھ یادگار شہر ستم گر ہی لے چلیں - ناصر کاظمی

    کچھ یادگار شہر ستم گر ہی لے چلیں آئے ہیں اس گلی میں تو پتھر ہی لے چلیں یوں کس طرح کٹے گا کڑی دھوپ کا سفر سر پر خیال یار کی چادر ہی لے چلیں یہ کہہ کر چھیڑتی ہے ہمیں دل گرفتگی گھبرا گءے ہیں آپ تو باہر ہی لے چلیں اس شہر بے چراغ میں جائے گی تو کہاں آ اے شب فراق تجھے گھر ہی لے چلیں ناصر کاظمی
  8. عمر سیف

    ناصر کاظمی اپنی دُھن میں رہتا ہوں ۔۔۔

    اپنی دُھن میں رہتا ہوں میں بھی تیرے جیسا ہوں او پچھلی رت کے ساتھی اب کے برس میں تنہا ہوں اپنی لہر ہے اپنا روگ دریا ہوں اور پیاسا ہوں تیری گلی میں سارا دن دکھ کے کنکر چنتا ہوں مجھ سے آنکھ ملائے کون میں تیرا آئینہ ہوں تو جیون کی بھری گلی میں جنگل کا رستہ ہوں آتی...
  9. ظ

    ناصر کاظمی گلی گلی مری یاد بچھی ہے پیارے رستہ دیکھ کے چل

    گلی گلی مری یاد بچھی ہے پیارے رستہ دیکھ کے چل مجھ سے اتنی وحشت ہے تو میری حدوں سے دور نکل ایک سمے ترا پھول سا نازک ہاتھ تھا میرے شانوں پر ایک یہ وقت کہ میں تنہا اور دکھ کے کانٹوں کا جنگل یاد ہے اب تک تجھ سے بچھڑنے کی وہ اندھیری شام مجھے تو خاموش کھڑا تھا لیکن باتیں کرتا تھا کاجل...
  10. فرحت کیانی

    ناصر کاظمی مجھے محسوس ہوتا ہے کہ لطفِ زندگی کم ہے - ناصر کاظمی

    [align=justify:5d4f97414b]مجھے محسوس ہوتا ہے کہ لطفِ زندگی کم ہے غمِ دل حد سے بڑھ کر ہے،میسر اب خوشی کم ہے مسلسل دل کی بے چینی کو کیا کہتے ہیں دل والو؟ تمھیں معلوم ہو شاید، مجھے تو آگہی کم ہے اب اِس کے بعد جسم و جاں کو جلانے سے بھی کیا حاصل چراغوں میں لہو جلتا ہے پھر بھی روشنی کم ہے جسے...
  11. پاکستانی

    ناصر کاظمی آج تو بے سبب اداس ہے جی

    آج تو بے سبب اداس ہے جی عشق ہوتا تو کوئی بات بھی تھی جلتا پھرتا ہوں میں دوپہروں میں جانے کیا چیز کھو گئی ہے میری وہیں پھرتا ہوں میں بھی خاک بسر اس بھرے شہر میں ہے ایک گلی چھپتا پھرتا ہے عشق دُنیا سے پھیلتی جا رہی ہے رُسوائی ہم نشیں کیا کہوں کہ وہ کیاہے چھوڑ یہ بات نیند اُڑنے لگی...
  12. فرذوق احمد

    ناصر کاظمی کوئی سمجھائے یہ کیا رنگ ہے میخانے کا - ناصر کاظمی

    غزل [color=#80BFFF][کوئی سمجھائے یہ کیا رنگ ہے میخانے کا آنکھ ساقی کی اُٹھے نام ہو پیمانے کا گرمئی شمع کا افسانہ سنانے والو رقص دیکھا نہیں تم نے ابھی پروانے کا چشمِ ساقی مجھے ہر گام پہ یاد آتی ہے راستہ بھول نہ جاؤں کہیں میخانے کا اب تو ہر شام گزرتی ہے اُسی کوچے میں یہ نتیجہ ہوا...
  13. الف عین

    برگِ نے از ناصر کاظمی سے انتخاب

    برگِ نے ناصر کاظمی انتخاب
  14. پاکستانی

    ناصر کاظمی ناصر کاظمی

    کون اس راہ سے گزرت ہے دل يونہي انتظار کرتا ہے ديکھ کر بھي نہ ديکھنے والے دل تجھے ديکھ ديکھ ڈرتا ہے شہر گل ميں کٹي ہے ساري رات ديکھيے دن کہاں گزرتا ہے دھيان کي سڑھيوں...
  15. وہاب اعجاز خان

    دیوان (ناصر کاظمی)

    ناصر کاظمی کی غزل میں دکھ کی ہلکی سی سلگتی ہوئی آنچ نظر آتی ہے۔ دکھ میں چھلبلاہٹ ہوتی ہے غصہ ہوتا ہے لیکن ناصر کے ہاں یہ چیزیں نہیں بلکہ دبی دبی کیفیت موجود ہے جو کہ میر کا خاصہ ہے۔ لیکن ناصر میر کی تقلید نہیں کرتا بلکہ صرف متاثر نظرآتے ہیں ۔ ناصر نے جو دکھ بیان کیے ہیں وہ سارے دکھ ہمارے جدید...
  16. فرذوق احمد

    ناصر کاظمی نا صر کاظمی ایک خوبصورت غزل (اے دردِ ہجرِ یار غزل کہہ رہا ہوں‌ میں)

    اے دردِ ہجر یار غزل کہہ رہا ہوں میں بے موسمِ بہار غزل کہہ رہا ہوں مہیں میرے بیانِ غم کا تسلسل نہ ٹوٹ جائے گیسئوں ذرا سنوار غزل کہہ رہا ہوں میں راز و نیازِ عشق میں کیا دخل ہے تیرا ہٹ فکرِ روزگار غزل کہہ رہا ہوں میں ساقی بیانِ شوق میں رنگینیاں بھی ہو لا جامِ خوشگوار غزل کہہ رہا ہوں میں...
  17. S

    ناصر کاظمی دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا

    دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا وہ تری یاد تھی اب یاد آیا آج مشکل تھا سنبھلنا اے دوست تو مصیبت میں عجب یاد آیا دن گزارا تھا بڑی مشکل سے پھر تیرا وعدہ شب یاد آیا تیرا بھولا ہوا پیماِن وفا مر رہیں گے اگر اب یاد آیا پھر کئی لوگ نظر سے گزرے پھر...
  18. N

    ناصر کاظمی کسی کلی نے بھی دیکھا نہ آنکھ بھر کے مجھے

    کسی کلی نے بھی دیکھا نہ آنکھ بھر کسی کلی نے بھی دیکھا نہ آنکھ بھر کے مجھے گزر گئی جرس گل اداس کرکے مجھے میں سو رہا تھا کسی یاد کے شبستاں میں جگا کے چھوڑ گئے قافلے سحر کے مجھے میں تیرے درد کی تغیانیوں میں ڈوب گیا پکارتے رہے تارے ابھر ابھر کے مجھے تیرے فراق کی راتیں کبھی نہ بھولیں گی مزے...
Top