ناصر کاظمی

  1. نیرنگ خیال

    ناصر کاظمی اب کے سال پُونم میں جب تو آئے گی ملنے

    اب کے سال پُونم میں جب تو آئے گی ملنے، ہم نے سوچ رکھا ہے رات یوں گزاریں گے دھڑکنیں بچھا دیں گے، شوخ ترے قدموں میں، ہم نگاہوں سے تیری، آرتی اتاریں گے تو کہ آج قاتل ہے، پھر بھی راحتِ دل ہے، زہر کی ندی ہے تو، پھر بھی قیمتی ہے تو پَست حوصلے والے، تیرا ساتھ کیا دیں گے!، زندگی اِدھر آجا! ہم تجھے...
  2. طارق شاہ

    ناصر کاظمی :::: کسی کا درد ہو دِل بے قرار اپنا ہے :::: Nasir Kazmi

    انْبالہ ایک شہر تھا، سُنتے ہیں اب بھی ہے میں ہُوں اُسی لُٹے ہُوئے قریے کی روشنی اے ساکنانِ خطۂ لاہور دیکھنا لایا ہُوں اُس خرابے سے میں لعلِ معدنی ناصر کاظمی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج جناب ناصر کاظمی صاحب کی 42 ویں برسی ہے۔ اِس موقع کی نسبت سے ،میں اُن کے دیوان سے اپنی ایک پسندیدہ غزل آپ سب...
  3. ل

    ناصر کاظمی نیت شوق بھر نا جا ئے کہیں

  4. طارق شاہ

    ناصر کاظمی :::: شعاعِ حُسن تِرے حُسن کو چھپاتی تھی :::: Nasir Kazmi

    غزل شعاعِ حُسن تِرے حُسن کو چھپاتی تھی وہ روشنی تھی کہ صُورت نظر نہ آتی تھی کسے مِلیں، کہاں جائیں کہ رات کالی ہے وہ شکل ہی نہ رہی ، جو دِیے جلاتی تھی وہ دن توتھے ہی حقیقت میں عمرکا حاصل خوشا وہ دن ، کہ ہمیں روز موت آتی تھی ذرا سی بات سہی ، تیرا یاد آجانا ! ذرا سی بات بہت دیر تک رُلاتی...
  5. نیرنگ خیال

    ناصر کاظمی اب اُن سے اور تقاضائے بادہ کیا کرتا

    اب اُن سے اور تقاضائے بادہ کیا کرتا جو مل گیا ہے میں اُس سے زیادہ کیا کرتا بھلا ہوا کہ ترے راستے کی خاک ہوا میں یہ طویل سفر پا پیادہ کیا کرتا مسافروں کی تو خیر اپنی اپنی منزل تھی تری گلی کو نہ جاتا تو جادہ کیا کرتا تجھے تو گھیرے ہی رہتے ہیں رنگ رنگ کے لوگ ترے حضور مرا حرفِ سادہ کیا کرتا بس...
  6. نیرنگ خیال

    ناصر کاظمی تیری زلفوں کے بکھرنے کا سبب ہے کوئی

    تیری زلفوں کے بکھرنے کا سبب ہے کوئی آنکھ کہتی ہے ترے دل میں طلب ہے کوئی آنچ آتی ہے ترے جسم کی عریانی سے پیرہن ہے کہ سلگتی ہوئی شب ہے کوئی ہوش اڑانے لگیں پھر چاند کی ٹھنڈی کرنیں تیری بستی میں ہوں یا خوابِ طرب ہے کوئی گیت بنتی ہے ترے شہر کی بھرپور ہوا اجنبی میں ہی نہیں تو بھی عجب ہے کوئی لیے...
  7. نیرنگ خیال

    ناصر کاظمی شوق کیا کیا دکھائے جاتا ہے

    شوق کیا کیا دکھائے جاتا ہے دل تجھے بھی بھلائے جاتا ہے اگلے وقتوں کی یادگاروں کو آسماں کیوں مٹائے جاتا ہے سوکھتے جارہے ہیں گل بوٹے باغ کانٹے اگائے جاتا ہے جاتے موسم کو کس طرح روکوں پتّہ پتّہ اڑائے جاتا ہے حال کس سے کہوں کہ ہر کوئی اپنی اپنی سنائےجاتا ہے کیا خبر کون سی خوشی کے لیے دل یونہی دن...
  8. فاتح

    ناصر کاظمی تو اسیر بزم ہے ہم سخن! تجھے ذوقِ نالۂ نےَ نہیں ۔ ناصر کاظمی

    تو اسیر بزم ہے ہم سخن! تجھے ذوقِ نالۂ نےَ نہیں ترا دل گداز ہو کس طرح، یہ ترے مزاج کی لَے نہیں ترا ہر کمال ہے ظاہری، ترا ہر خیال ہے سرسری کوئی دل کی بات کروں تو کیا، ترے دل میں آگ تو ہے نہیں جسے سن کے روح مہَک اٹھے، جسے پی کے درد چہَک اٹھے ترے ساز میں وہ صدا نہیں، ترے میکدے میں وہ مَے نہیں...
  9. طارق شاہ

    ناصر کاظمی پھر نئی فصْل کے عنواں چمکے

    غزل ناصرکاظمی پھر نئی فصْل کےعنواں چمکے ابْر گرجا، گُلِ باراں چمکے آنکھ جھپکوں تو شرارے برسیں سانس کھینچوں تو رگِ جاں چمکے کیا بِگڑ جائے گا اے صُبْحِ جمال آج اگر شامِ غرِیباں چمکے اے فلک بھیج کوئی برقِ خیال کچھ تو شامِ شبِ ہِجراں چمکے پھر کوئی دل کو دُکھائے ناصر کاش یہ گھر کسی...
  10. طارق شاہ

    ناصر کاظمی - کہاں گئے وہ سُخنوَر جو میرِ محفِل تھے

    غزل ناصر کاظمی کہاں گئے وہ سُخنوَر جو میرِ محفِل تھے ہمارا کیا ہے، بھلا ہم کہاں کے کامِل تھے بَھلا ہُوا کہ، ہَمَیں یوں بھی کوئی کام نہ تھا جو ہاتھ ٹُوٹ گئے، ٹُوٹنے کے قابِل تھے حرام ہے جو صُراحی کو مُنْہ لگایا ہو ! یہ اور بات کہ ہم بھی شرِیک محفِل تھے گُزر گئے ہیں جو خوشبوئے رائیگاں...
  11. طارق شاہ

    ناصر کاظمی " تِیرگی ختْم ہوئی، صُبْح کے آثار ہُوئے "

    تِیرگی ختْم ہوئی، صُبْح کے آثار ہُوئے شہْرکے لوگ نئےعزْم سے بیدار ہُوئے شب کی تارِیکی میں جوآئے تھے رہزن بن کر صُبْح ہوتے ہی وہ رُسوا سرِ بازار ہُوئے جگمگانے لگِیں پھرمیرے وطَن کی گلِیّاں ظُلم کے ہاتھ سِمَٹ کر پسِ دِیوار ہُوئے ہم پہ احساں ہے تِرا، شہْر کی اے نہرِعَظِیم تو نے سِینے پہ...
  12. محسن وقار علی

    ناصر کاظمی درد کم ہونے لگا آؤ کہ کچھ رات کٹے

    درد کم ہونے لگا آؤ کہ کچھ رات کٹے غم کی معیاد بڑھاؤ کہ کچھ رات کٹے ہجر میں آہ و بکا رسمِ کہن ہے لیکن آج یہ رسم ہی دہراؤ کہ کچھ رات کٹے یوں تو تم روشنیِ قلب ونظر ہو لیکن آج وہ معجزہ دکھلاؤ کہ کچھ رات کٹے دل دکھاتا ہے وہ مل کر بھی مگر آج کی رات اسی بے درد کو لے آؤ کہ کچھ رات کٹے دم گھٹا...
  13. ظ

    نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں ۔۔۔۔ (اشوک کھوسلہ )

    یہ غزل میں نے اسکول کے دور میں سنی تھی ۔ اشوک کھوسلہ نے اس غزل کے ساتھ کیسا انصاف کیا ہے ۔ آپ خود ہی اندازہ لگائیں ۔ پھر یہ غزل برسوں بعد سنی ۔ اس بار اس غزل کو خلیل حیدر نے گایا ۔ سن کر طبعیت اتنی بے مزہ ہوئی کے سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ کیسے کیسے لوگ اب مشہور ہوجاتے ہیں ۔
  14. فرخ منظور

    فریدہ خانم دیارِ دل کی رات میں چراغ سا جلا گیا ۔ فریدہ خانم، ناصر کاظمی

    دیارِ دل کی رات میں چراغ سا جلا گیا گلوکارہ: فریدہ خانم شاعر: ناصر کاطمی غزل دیارِ دل کی رات میں چراغ سا جلا گیا ملا نہیں توکیا ہوا وہ شکل تو دکھا گیا وہ دوستی تو خیر اب نصیبِ دشمناں ہوئی وہ چھوٹی چھوٹی رنجشوں کا لطف بھی چلا گیا جدائیوں کے زخم دردِ زندگی نے بھر دیے تجھے بھی نیند...
  15. ع

    شکر ادا کرتا ہوں

    شکر ادا کرتا ہوں ناصر کاظمی اور حبیب جالب بے تکلف دوست تھے ۔ جالب نے کاظمی سے کہا: " آپ کی غزلیات سن کرمیری خواہش ہوتی ہے کہ کاش مجھ میں بھی ایسی غزل لکھنے کی استعداد ہوتی ۔ جب میں آپ کا کوئی کلام دیکھتا ہوں میرے دل میں یہ خیال آتا ہے کہ کاش اس پر میرا نام لکھا ہو۔" کاظمی نے جالب کی اس تعریف...
  16. محمود احمد غزنوی

    ناصر کاظمی ترے آنے کا دھوکہ سا رہا ہے۔ ۔ ۔ناصر کاظمی

    ترے آنے کا دھوکہ سا رہا ہے دیا سا رات بھر جلتا رہا ہے عجب ہے رات سے آنکھوں کا عالم یہ دریا رات بھر چڑھتا رہا ہے سنا ہے رات بھر برسا ہے بادل مگر وہ شہر جو پیاسا رہا ہے وہ کوئی دوست تھا اچھے دنوں کا جو پچھلی رات سے یاد آ رہا ہے کسے ڈھونڈو گے ان گلیوں میں ناصر چلو اب گھر چلیں دن جا...
  17. Saraah

    اب کے سال پونم میں -آصف علی

    اب کے سال پونم میں -آصف علی
  18. فرخ منظور

    تصور خانم دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی ۔ تصور خانم

    فاتح صاحب کی فرمائش پر ناصر کاظمی کی غزل حاضر ہے۔ فاتح صاحب یہ غزل تصور خانم نے غلام علی سے بہتر گائی ہے۔ :) دل میں اِک لہر سی اٹھی ہے ابھی گلوکارہ: تصور خانم
  19. پ

    ناصر کاظمی غزل-تیرا قصور نہیں، میرا تھا -ناصر کاظمی

    غزل تیرا قصور نہیں، میرا تھا میں تُجھ کو اپنا سمجھا تھا دیکھ کے تیرے بدلے تیور میں تو اُسی دن رو بیٹھا تھا اب میں سمجھا ، اب یاد آیا تُو اُس دن کیوں چُپ چُپ سا تھا تجھ کو جانا ہی تھا لیکن مِلے بغیر ہی کیا جانا تھا اب تجھے کیا کیا یاد دِلاؤں اب تو وہ سب کچھ ہی دھوکا تھا وہی...
  20. پ

    ناصر کاظمی غزل - تھوڑی دیر کو جی بہلا تھا-ناصر کاظمی

    غزل تھوڑی دیر کو جی بہلا تھا پھر تری یاد نے گھیر لیا تھا یاد آئی وہ پہلی بارش جب تجھے ایک نظر دیکھا تھا ہرے گلاس میں چاند کے ٹکڑے لال صراحی میں سونا تھا چاند کے دل میں جلتا سورج پھول کے سینے میں کانٹا تھا کاغذ کے دل میں چنگاری خس کی زباں پر انگارہ تھا دل کی صورت کا اک پتا...
Top