برگِ نے از ناصر کاظمی سے انتخاب

الف عین

لائبریرین
ساتوں رنگ

بال کالے سفید برف سے گال
چاند سا جسم، کوٹ بادل کا
لہریا آستین، سرخ بٹن
کچھ بھلا سا تھا رنگ آنچل کا
اب کے آئے تو یہ ارادہ ہے
دونوں آنکھوں سے اس کو دیکھوں گا
 

الف عین

لائبریرین
میں نے جب لکھنا سیکھا تھا
پہلے تیرا نام لکھا تھا
تو نے کیوں مترا ہاتھ نہ پکڑا
میں جب رستے سے بھٹکا تھا
پہلی بارش بھیجنے والے
میں ترے درشن کا پیاسا تھا
تیرے گھر کے دروازے پر
سورج ننگے پاؤں کھڑا تھا

دھوپ تھی اور بادل چھایا تھا
دیر کے بعد تجھے دیکھا تھا
میں اس جانب تو اس جانب
بیچ میں پتھٕر کا دریا تھا
ایک پیڑ کے ہات تھے خالی
اک ٹہنی پر دیا جلا تھا

مجھ پر آگ حرام تھی لیکن
آؔگ نے اپنا کام کیا تھا
 

الف عین

لائبریرین
پل پل کانتا سا چبھتا تھا
یہ ملنا بھی کیا ملنا تھا
کانٹوں کے ویراں جنگل میں
میں کس مشکل سے پہنچا تھا
یہ جنگل اور تیری خوشبو
کیا میں سپنا دیکھ رہا تھا؟
آج وہ آنکھیں بجھی بجھی تھیں
میں جنھیں پہروں ہی تکتا تھا
کتنی باتیں کی تھیں لیکن
ایک بات سے جی ڈرتا تھا
تیرے ہاتھ کی چائے تو پی تھی
دل کا رنج تو دل میں رہا تھا
میں بھی مسافر، تجھ کو بھی جلدی
گاڑی کا بھی وقت ہوا تھا
تو نے بھی کوئ بات نہ پوچھی
میں بھی تجھے کچھ کہہ نہ سکا تھا
اک اجڑے سے اسٹیشن پر
تو نے مجھ کو چھوڑ دیا تھا

تیرے شہر کا اسٹیشن بھی
میرے دل کی طرح سونا تھا
کیسے کہوں روداد سفر کی
آگے موڑ جدائ کا تھا
 

الف عین

لائبریرین
عشق جب زمزمہ پیرا ہوگا
حسن خود محوِ تماشا ہوگا
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئ ہم سا ہوگا
ہم تجھے بھول کے خوش بیٹھے ہیں
ہم سا بے درد کوئ کیا ہوگا
پھر سلگنے لگا صحرائے حیات
ابر اس پر کہیں برسا ہوگا
پھر کسی دھیان کے چوراہے ہر
دلِ وحشت زدہ تنہا ہوگا
شام سے سوچ رہا ہوں ناصر
چاند کس شہر میں اترا ہوگا
 

الف عین

لائبریرین
گزارنی تھی ترے ہجر کی پہاڑ سی رات
میں تارِ ریشم و زر کا دوشالہ کیا کرتا
حکایتِ غمِ دنیا کو چاہئے دفتر
ورق ورق مرے دل کا رسالہ کیا کرتا

سارا دن تپتے سورج کی گرمی میں جلتے رہے
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا پھر چلی سو رہو سو رہو
چاندنی اور دھوئیں کے سوا دور تک کچھ نہیں
سو گئ شیر کی ہر گلی سو رہو سو رہو
ساری بستی کے لوگ اس مدھر لے میں کھوئے گئے
دور بجنے لگی بانسری سو رہو سو رہو
دور شاخوں کے جھرمٹ میں جگنو بھی گم ہو گئے
چاند میں سو گئ چاندنی سو رہو سو رہو
 

الف عین

لائبریرین
چلے چلو انھیں گم نام برف زاروں میں
عجب نہیں یہیں مل جائے درد کا چارا

میں سورہا تھا کسی یاد کے شبستاں میں
جگا کے چھوڑ گئے قافلے سحر کے مجھے

جب سے دیکھا ہے ترے ہات کا چاند
میں نے دیکھا ہی نہیں رات کا چاند
رس کہیں روپ کہیں رنگ کہیں
ایک جادو ہے ملاقات کا چاند

پھول سے ناچتے ہیں ہونٹوں پر
جیسے سچ مچ کسی کو چوم لیا

بجھی آتشِ گل، اندھیرا ہوا
وہ اجلے سنہرے ورق اب کہاںۘ

کیاں نہ اس کم نما کو چاند کہوں
چاند کو دیکھ کر جو یاد آئے

چیختی ہیں ڈراؤنی راتیں
چاند نکلا ہے آسمان سے دور
 

الف عین

لائبریرین
پھر چاند کو لے اڑی ہوائیں
پھر بانسری چھیڑ دی ہوا نے
رستوں میں اداس خوشبؤوں کے
پھولوں نے لٹا دئے خزانے

اڑ گئے شاخوں سے یہ کہہ کر طیور
اس گلستاں کی ہوا میں زہر ہے

یوں نہ گھبرائے ہوئے پھرتے تھے
دل عجب کنجِ اماں تھا پہلے
ہر خرابہ یہ صدا دیتا ہے
میں بھی آباد مکاں تھا پہلے

شہر میں شور گھر میں تنہائ
دل کی باتیں کہاں کرے کوئ

صبح تک ہم نہ سو سکے ناصر
رات بھر کتنی اوس برسی ہے

ہم نے موتی سمجھ کے چوم لیا
سنگریزہ جہاں پڑا دیکھا
 

الف عین

لائبریرین
یوں ہی عمر گنوائ سونا سی یوں ہی جان گنوائ موتی سی
اب تجھ سے بچھڑ کر سوچتے ہیں تجھے پا کے بھی ہم نے کیا پایا

ایک سمے ترا پھول سا نازک ہاتھ تھا اپنے ہاتھوں میں
ایک سمے یہ تنہائ اور دکھ کے کانٹوں کا جنگل

دکھ کی لہر نے چھیڑا ہوگا
یاد نے کنکر پھینکا ہوگا

کون اس راہ سے گزرتا ہے
دل مگر انتظار کرتا ہے
دھیان کی سیڑھیوں پہ پچھلے پہر
کوئ چپکے سے پاؤں دھرتا ہے

کیا خبر کوئ دفینہ مل جائے
کوئ دیوار گرا کر دیکھو
کیوں سمن چھوڑ دیا خوشبو نے
پھول کے پاس تو جا کر دیکھو
فاختہ چپ ہے بڑی دیر سے کیوں
سرو کی شاخ ہلا کر دیکھو
ان اندھیروں میں کرن ہے کوئ
شب زدہ آنکھ اٹھا کر دیکھو

فرصتِ موسمِ نشاط نہ پوچھ
جیسے اک خواب خواب میں دیکھا
 

الف عین

لائبریرین
دھوپ نگلی دن سہانے ہو گئے
چاند کے سب رنگ پھیکے ہو گئے
کیا تماشا ہے کہ بے ایٌامِ گل
پتّیوں کے ہاتھ پیلے ہو گئے
آنچ کھا لکھا کر صدائے رنگ کی
تتلیوں کے پر سنہرے ہو گئے
اس قدر رویا ہوں تیری یاد میں
آئینے آنکھوں لکے دھندلے ہو گئے

نئے کپڑے پہن کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس کے لئے
وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا، میں باہر جاؤں کس کے لئے
 

الف عین

لائبریرین
یہ صبح کی سپیدیاں، یہ دوپہر کی زردیاں
میں آئینے میں ڈھونڈھتا ہوں میں کہاں چلا گیا

سناتا ہے کوئ بھولی کہانی
مہکتے میٹھے دریاؤں کا پانی
اندھیری رات کے پردوں میں چھپ کر
کسے روتی ہے چشموں کی روانی
کرن پریاں اترتی ہیں کہاں سے
کہاں جاتے ہیں رستے کہکشانی

دل ترے بعد سو گیا ورنہ
شور تھگا اس مکاں میں کیا کیا کچھ

یہ شب یہ خیال و خواب تیرے
کیا پھول کھلے ہیں منہ اندھیرے
آنکھوں میں چھپائے پھر رہا ہوں
یادوں کے بجھے ہوے سویرے
جنگل میں ہوئ ہے شام ہم کو
بستی سے چلے تھے منہ اندھیرے

کتنے مانوس لوگ یاد آئے
صبح کی چاندنی میں کیا کچھ تھا
رات بھر ہم نہ سو سکے ناصر
پردۂ خامشی میں کیا کچھ تھا
 

الف عین

لائبریرین
فلک نے پھینک دیا برگِ گل کی چھاؤں سے دور
وہاں پڑے ہیں جہاں خارزار بھی تو نہیں

آتشِ غم کے سیلِ رواں میں نیندیں جل کر راکھ ہوئیں
پتھّر بن کر دیکھ رہا ہوں آتی جاتی راتوں کو

دل دھڑکے کا سبب یاد نہیں
۔۔۔۔
وہ ستارہ تھی کہ شبنم تھی کہ پھول
ایک صورت تھی عجب، یاد نہیں

اے شہرِ طرب کو جانے والو
کرنا مرا انتظار کچھ دییر

کیا بلا آسمان سے اتری
اس کی صورت بھی دھیان سے اتری

شبِ گلشن کس قدر سہانی تھی
اجنبی مہک پا کر ہم نکل پڑے گھر سے
 

الف عین

لائبریرین
یاد آتا ہے بے سبب کوئ
ہم سے روٹھا ہے بے سب کوئ

جہاں تیرے غم نے قدم رکھ دیا
سرِ طاق دنیاکا غم رکھ دیا
دکھا کر ہمیں دو جہانوں کے خواب
دلوں میں غمِ بیش و کم رکھ دیا
سحر دم فلک نے مرے سامنے
بجائے سبو، خوانِ غم رکھ دیا
برستے ہیں اطراف سے ہم پہ تیر
یہ کس راستے میں قدم رکھ دیا
ذرا دیکھ تو اے قسیمِ ازل
یہ کس ہاتھ پر جامِ جم رکھ دیا
 
Top