ناصر کاظمی کسے دیکھا کہاں دیکھا نہ جائے - ناصر کاظمی

فرخ منظور

لائبریرین
کسے دیکھا کہاں دیکھا نہ جائے
وہ دیکھا ہے جہاں دیکھا نہ جائے

میری بربادیوں پر رونے والے
تجھے محو فغاں دیکھا نہ جائے

زمیں لوگوں سے خالی ہو رہی ہے
یہ رنگ آسماں دیکھا نہ جائے

سفر ہے اور غربت کا سفر ہے
غم صد کارواں دیکھا نہ جائے

کہیں آگ اور کہیں لاشوں کے انبار
بس اے دور زماں دیکھا نہ جائے

در و دیوار ویراں شمع مدھم
شبِ غم کا سماں دیکھا نہ جائے

پرانی صحبتیں یاد آرہی ہیں
چراغوں کا دھواں دیکھا نہ جائے

بھری برسات خالی جا رہی ہے
سر ابرِ رواں دیکھا نہ جائے

کہیں تم اور کہیں ہم ، کیا غضب ہے
فراقِ جسم و جاں دیکھا نہ جائے

وہی جو حاصل ہستی ہے ناصر
اسی کو مہرباں دیکھا نہ جائے
 

الف عین

لائبریرین
فرخ۔۔۔ ناصر کا برگِ نے سے انتخاب اور وہاب اعجاز کا ٹائپ کیا ’دیوان‘ ۔ جسے یہاں وکی پر اور وکی بکس میں ’دیوانِ ناصر کاظمی‘ کے نام سے شائع کیا گیا ہے، اور کچھ مزید کلام ملا کر میں نے ساتوں رنگ نامی ای بک بنا رکھی تھی۔ جو اردو پلیس پر بھی ناصر کے ننام سے ہے۔ ذرا دیکھتے جائی کہ اس مواد میں سے دوبارہ ٹائپ نہ ہو۔ دوبارہ محنت کرنے سے فائدہ۔ اس سے بہتر ہو کہ وہ کلام ٹائپ کیا جائے جو اس میں شامل نہ ہو۔ اور اب تک جو کچح ترم نے ٹائپ کیا ہے، اگر وہ اس میں شامل نہیں ہے، تو ان سب کی ایک الگ فائل بنا کر مجھے بھیجتے جائیں۔ ایک اور ای بک کے آثار نظر آ رہے ہیں مجھے۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت شکریہ آپ سب کا - اعجاز صاحب بس یہی غزلیں برگِ نے سے لی تھیں - مجھے نہیں معلوم تھا کہ آپ نے ای بک بنا رکھی ہے- براہِ کرم اس کا ربط بھی دے دیں -
 

فرخ منظور

لائبریرین
کسے دیکھا، کہاں دیکھا نہ جائے
وہ دیکھا ہے جہاں دیکھا نہ جائے

مری بربادیوں پر رونے والے
تجھے محوِ فغاں دیکھا نہ جائے

زمیں لوگوں سے خالی ہو رہی ہے
یہ رنگِ آسماں دیکھا نہ جائے

سفر ہے اور غربت کا سفر ہے
غمِ صد کارواں دیکھا نہ جائے

کہیں آگ اور کہیں لاشوں کے انبار
بس اے دورِ زماں دیکھا نہ جائے

در و دیوار ویراں شمع مدھم
شبِ غم کا سماں دیکھا نہ جائے

پرانی صحبتیں یاد آرہی ہیں
چراغوں کا دھواں دیکھا نہ جائے

بھری برسات خالی جا رہی ہے
سرِ ابرِ رواں دیکھا نہ جائے

کہیں تم اور کہیں ہم ، کیا غضب ہے
فراقِ جسم و جاں دیکھا نہ جائے

وہی جو حاصلِ ہستی ہے ناصرؔ
اسی کو مہرباں دیکھا نہ جائے

(ناصرؔ کاظمی)
 
آخری تدوین:
Top