ناصر کاظمی تنہائی کا دکھ گہرا تھا - ناصر کاظمی

عیشل

محفلین
تنہائی

تنہائی کا دکھ گہرا تھا
میں دریا دریا رویا تھا
اک لہر ہی نہ سنبھلی ورنہ
میں طوفانوں سے کھیلا تھا
تنہائی کا تنہا سایہ
دیر سے میرے ساتھ لگا تھا
چھوڑ گئے جب سارے ساتھی
تنہائی نے ساتھ دیا تھا
سوکھ گئی جب سکھ کی ڈالی
تنہائی کا پھول کھِلا تھا
تنہائی میں یادِ خدا تھی
تنہائی میں خوفِ خدا تھا
تنہائی محراب ِ عبادت
تنہائی منبر کا دیا تھا
تنہائی میرا پایہ ء شکستہ
تنہائی میرا دستِ دعا تھا
وہ جنت میرے دل میں چھُپی تھی
میں جسے باہر ڈھونڈ رہا تھا
تنہائی میرے دل کی جنت
میں تنہا ہوں،میں تنہا تھا!

(ناصر کاظمی)
 
Top