ناصر کاظمی آج تو بے سبب اداس ہے جی

پاکستانی

محفلین
آج تو بے سبب اداس ہے جی
عشق ہوتا تو کوئی بات بھی تھی

جلتا پھرتا ہوں میں دوپہروں میں
جانے کیا چیز کھو گئی ہے میری

وہیں پھرتا ہوں میں بھی خاک بسر
اس بھرے شہر میں ہے ایک گلی

چھپتا پھرتا ہے عشق دُنیا سے
پھیلتی جا رہی ہے رُسوائی

ہم نشیں کیا کہوں کہ وہ کیاہے
چھوڑ یہ بات نیند اُڑنے لگی

آج تو وہ بھی کچھ خموش سا تھا
میں نے بھی اُس سے کوئی بات نہ کی

ایک دم اُس کے ہونٹ چُوم لیئے
یہ مجھے بیٹھے بیٹھے کیا سوجھی

ایک دم اُس کا ہاتھ چھوڑ دیا
جانے کیا بات درمیاں آئی

تو جو اتنا اداس ہے ناصر
تجھے کیا ہوگیا بتا تو سہی

ناصر کاظمی مرحوم
 

فرخ منظور

لائبریرین
آج کچھ بے سبب اداس ہے جی - ناصر کاظمی

آج تو بے سبب اداس ہے جی
عشق ہوتا تو کوئی بات بھی تھی

جلتا پھرتا ہوں میں دوپہروں‌میں
جانے کیا چیز کھو گئی میری

وہیں پھرتا ہوں میں بھی خاک بسر
اس بھرے شہر میں‌ہے ایک گلی

چھپتا پھرتا ہے عشق دنیا سے
پھیلتی جا رہی ہے رسوائی

ہم نشیں کیا کہوں کہ وہ کیاہے
چھوڑ یہ بات نیند اُڑنے لگی

آج تو وہ بھی کچھ خموش سا تھا
میں نے بھی اُس سے کوئی بات نہ کی

ایک دم اسکے ہونٹ چوم لیے
یہ مجھے بیٹھے بیٹھے کیا سوجھی

ایک دم اس کا ہاتھ چھوڑ دیا
جانے کیا بات درمیاں آئی

تو جو اتنا اداس ہے ناصر
تجھکو کیا ہوگیا بتا تو سہی
 

فاتح

لائبریرین
فرخ صاحب! ناصر کاظمی کی کتاب 'دیوان' سے خوبصورت غزل شیئر کرنے پر بہت شکریہ! بس مطلع کے مصرع اولیٰ میں 'کچھ' کی بجائے 'تو' ہے۔
"آج تو بے سبب اداس ہے جی"

ویسے یہ مکمل غزل محفل پر یہاں پہلے ہی ارسال کی جا چکی ہے۔ لیکن وہاں دوسرے شعر کے مصرع ثانی میں ایک ٹائپو ہے۔ 'جانے کیا چیز کھو گئی ہے میری' کی بجائے اصل مصرع یوں ہے:
"جانے کیا چیز کھو گئی میری"
 

فرخ منظور

لائبریرین
شکریہ فاتح صاحب تصحیح کے لیے - یہ دیوان سے نہیں یادداشت سے لکھی گئی ہے - وہ غزل بھی میں نے دیکھی ہے جو پہلے پوسٹ ہوچکی ہے اس غزل میں مقطع میں"‌تجھے" ہے جبکہ میرا خیال ہے "تجھ کو"ہونا چاہیے - میں باقی کے شعر شامل کر کے اسے مکمل کر رہا ہوں -
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت شکریہ فرخ صاحب شیئر کرنے کیلیئے، بہت اچھی غزل ہے یہ ناصر کی۔



وہ غزل بھی میں نے دیکھی ہے جو پہلے پوسٹ ہوچکی ہے اس غزل میں مقطع میں"‌تجھے" ہے جبکہ میرا خیال ہے "تجھ کو"ہونا چاہیے - میں باقی کے شعر شامل کر کے اسے مکمل کر رہا ہوں -

میرے پاس 'دیوان' تو نہیں ہے (ایک صاحب لے گئے تھے) لیکن اعجاز اختر صاحب کا مرتب کردہ ناصر کاظمی کا انتخاب 'ساتوں رنگ' میں میں نے یہ غزل دیکھی ہے اور اس میں مقطع کے دوسرے شعر میں "تجھے" ہی ہے اور اس سائٹ پر بھی ایسا ہی ہے۔

بحر کی مناسبت سے چاہیئے تو "تجھ کو" ہی ہے لیکن دراصل جس بحر میں یہ غزل ہے اس میں اتنی اجازت ہے کہ مثلاً "تجھ کو" کو "تجھے" بنا لیا جائے، شاید ناصر نے یہ اس وجہ سے کیا ہوگا کہ "تجھ کو کیا ہو گیا بتا تو سہی" میں 'تجھ کو' اور 'کیا' میں اوپر تلے دو 'کاف' آ رہے ہیں اور اس تنافر سے ثقالت پیدا ہو رہی ہے اور شعر فصاحت کے درجے سے گر رہا ہے۔ جبکہ "تجھے کیا ہو گیا بتا تو سہی" میں مصرع بہت رواں اور فصیح ہے۔ شعرا حضرات تنافر سے بچنے کا ضرور التزام کرتے ہیں، بلکہ تنافر معائب سخن میں شمار ہوتا ہے، اور بغیر کسی مجبوری کے، قصداً ایسی اجازتیں استعمال کرنے کی مثالیں شعرا کے ہاں بہت ملتی ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔
 

آج تو بے سبب اداس ہے جی
عشق ہوتا تو کوئی بات بھی تھی

چلتا پھرتا ہوں کیوں دوپہروں میں
جانے کیا چیز کھو گئی میری

وہیں پھرتا ہوں میں بھی خاک بسر
اس بھرے شہر میں ہے ایک گلی

چھپتا پھرتا ہے عشق دنیا سے
پھیلتی جارہی ہے رسوائی

ہم نشین کیا کہوں کہ وہ کیا ہے
خود یہ بات نیند اڑانے لگی

آج تو وہ بھی کچھ خاموش سا تھا
میں نے بھی اس سے کوئی بات نہ کی

ایک دم اسکے ہاتھ چوم لئے
یہ مجھے بیٹھے بیٹھے کیا سوجھی

تو جو اتنا اداس ہے ناصر
تجھے کیا ہو گیا بتا تو سہی​

ناصر کاظمی
 
Top