نتائج تلاش

  1. فرخ منظور

    تبسم کچھ اور گمرہیِ دل کا راز کیا ہو گا ۔ صوفی تبسم

    کچھ اور گمرہیِ دل کا راز کیا ہو گا اِک اجنبی تھا کہیں رہ میں کھو گیا ہو گا وہ جن کی رات تمھارے ہی دم سے روشن تھی جو تم وہاں سے گئے ہو گے کیا ہوا ہو گا اسی خیال میں راتیں اجڑ گئیں اپنی کوئی ہماری بھی حالت کو دیکھتا ہو گا تمھارے دل میں کہاں میری یاد کا پرتو وہ ایک ہلکا سا بادل تھا چھٹ گیا ہو گا...
  2. فرخ منظور

    تبسم نرالا ہے فقیروں کا مقامِ کج کلاہی بھی ۔ صوفی تبسم

    نرالا ہے فقیروں کا مقامِ کج کلاہی بھی کہ اس کی آبرو سے اوج پر ہے تاجِ شاہی بھی عجب کیا خودہی آنکھوں میں سمٹ آئیں ترے جلوے عجب کیا کام آجائے یہ میری کم نگاہی بھی یہ آئینہ حریفِ تابِ جلوہ ہو نہیں سکتا مجھی پر چھوڑ دو یہ شیوۂ حیرت نگاہی بھی وفاداری بشرطِ استواری کی کسے فرصت غنیمت ہے کسی کی یہ...
  3. فرخ منظور

    تبسم ہستیِ بشر کیا ہے اِک نظر کا دھوکا ہے ۔ صوفی تبسم

    ہستیِ بشر کیا ہے اِک نظر کا دھوکا ہے آدمی کی صورت میں آدمی کا سایہ ہے غایتِ نظر کیا ہے، جلوہ ہے کہ پردہ ہے آنکھ سے جو دیکھا ہے، دل اسی کو ترسا ہے صرصرِ حوادث سے مٹ گئے نشاں کیا کیا اس جہانِ صحرا میں تیرا نقشِ پا کیا ہے تم مجھے بھلا دو گے، میں تمھیں بھلا دوں گا ساری بات دل کی ہے، دل کا کیا...
  4. فرخ منظور

    تبسم تمھی کہو کہاں لے جائے کوئی جنسِ ہنر ۔ صوفی تبسم

    تمھی کہو کہاں لے جائے کوئی جنسِ ہنر نہ تجھ میں ذوقِ نظر ہے نہ مجھ میں ذوقِ نظر بھٹک کے رہ گئی منزل پلٹ گئے راہی نہ جانے ختم کہاں ہو گا رہبروں کا سفر ہوا کا ہلکا سا جھونکا ہو، کانپ جاتے ہیں یہ سوکھے پتے ہیں، ان کھنکھناہٹوں سے نہ ڈر کبھی تو آ کے زمیں کے نشیب زار بھی دیکھ کبھی تو اپنے فلک کی...
  5. فرخ منظور

    تبسم نہ روبرو کوئی دل بر نہ دل رُبا منظر ۔ صوفی تبسم

    نہ روبرو کوئی دل بر نہ دل رُبا منظر تو پھر یہ کیسے دریچے، یہ کیسے بام و در بہک نہ جائے نگہ، ڈگمگا نہ جائیں قدم رہِ وفا ہے، یہاں سے ذرا سنبھل کے گزر ملیں گے جا کے، خدا جانے کِس مقام پہ دل ابھی تو اُن کی نظر سے نہیں ملی ہے نظر ابھی تو دور بہت ہے تجلیِ رخِ دوست ابھی تو قدموں سے ابھرا ہے، دامنوں...
  6. فرخ منظور

    تبسم مسافرانِ محبت کی داستاں ہے عجیب ۔ صوفی تبسم

    مسافرانِ محبت کی داستاں ہے عجیب جو سو گئی کہیں منزل تو جاگ اٹھے ہیں نصیب نہ پوچھ مرحلۂ شوق دور ہے کہ قریب! جہاں ہو دشتِ تمنّا وہیں دیارِ حبیب دعا نہ مانگ کہ ہو آرزو قبول تری دعا یہ مانگ کوئی آرزو ہو تجھ کو نصیب نہ جانے زورِ خطابت سے تھک گیا ہے وہ نہ جانے عجزِ ندامت سے چُپ ہوا ہے خطیب میں خود...
  7. فرخ منظور

    تبسم بیانِ اہلِ محبت بجز اشارہ نہیں ۔ صوفی تبسم

    بیانِ اہلِ محبت بجز اشارہ نہیں خموشیوں کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ادھر ہی لوٹ کے آئے گی پھر تری کشتی یہ ایک موجۂ گرداب ہے کنارہ نہیں یہ کہہ کے لوٹ گئی صحنِ گُل سے فصلِ بہار کہ چشمِ اہلِ چمن در خورِ نظارہ نہیں بھٹک رہا ہے کہاں تُو فضائے گردوں میں جہانِ خاک میں کیا ایک بھی ستارہ نہیں؟ ہزار بار...
  8. فرخ منظور

    تبسم زباں کرتی ہے دل کی ترجمانی دیکھتے جاؤ! ۔ صوفی تبسم

    زباں کرتی ہے دل کی ترجمانی دیکھتے جاؤ! پکار اٹھی ہے میری بے زبانی دیکھتے جاؤ! کہاں جاتے ہو، الفت کا فسانہ چھیڑ کر ٹھہرو! پہنچتی ہے کہاں اب یہ کہانی دیکھتے جاؤ! تری ظالم محبت نے جسے بدنام کر ڈالا اُسی مظلوم کی رسوا جوانی دیکھتے جاؤ! سناتا ہے کوئی محرومیوں کی داستاں سُن لو! اجڑتی ہے کسی کی...
  9. فرخ منظور

    بابا بلھے شاہ عِلموں بس کریں او یار ۔ بلھے شاہ

    ظاہر و باطن علم کے متعلق نہیں بلکہ ایسے علم سے خبردار کیا گیا ہے جو کہ مذہب کو انسانوں کو استعمال کرنے کے لیے حاصل کیا جاتا ہے۔
  10. فرخ منظور

    بابا بلھے شاہ عِلموں بس کریں او یار ۔ بلھے شاہ

    عِلموں بس کریں او یار! اِکّو الف ترے درکار عِلم نہ آوے وچ شُمار! اِکّو الف ترے درکار جاندی عُمر، نہیں اِعتبار عِلموں بس کریں او یار! عِلموں بس کریں او یار! پڑھ پڑھ لکھ لکھ لاویں ڈھیر ڈھیر کتاباں چار چوپھیر گِردے چانن وچ انھیر پُچھّو: “راہ؟“ تے خبر نہ سار عِلموں بس کریں او یار! پڑھ پڑھ شیخ...
  11. فرخ منظور

    "گل کوئی عشق دی کر پیار دا قصہ سنا" ساغر صدیقی

    واہ جی۔ ایہ کلام کتھوں لبھیا تہانوں؟
  12. فرخ منظور

    کلاسیکی شعرا کے کلام سے انتخاب

    ریختہ سن کے ہمارا وہ رقیبِ موذی مثل بچھو کے چھپا رخنۂ دیوار میں جا ۔۔۔۔۔۔ دل کو لے بوسہ نہ دے ہے وہ پری دیکھو تو اوس نے سیکھی ہے عجب مفت بری دیکھو تو ۔۔۔۔۔۔ فکر اطفال کو ہے سنگ اٹھا لانے کی آمد آمد ہوئی شاید ترے دیوانے کی (غلام مصطفیٰ تحیّرؔ)
  13. فرخ منظور

    میر حسن دیکھ آئینہ میں عکسِ رخِ جانانہ جدا ۔ میر حسن

    دیکھ آئینہ میں عکسِ رخِ جانانہ جدا میں جدا محو ہوا اور دلِ دیوانہ جدا سرسری قصہ میں غیروں کے نہ سن میرا حال گوشِ دل سے کبھی سنیو مرا افسانہ جدا آہ کیا جانیے محفل میں یہ کس کی خاطر شمع روتی ہے جدا جلتا ہے پروانہ جدا شرکتِ شیخ و برہمن سے میں نکلا جب سے کعبہ سونا ہے جدا خالی ہے بتخانہ جُدا دور...
  14. فرخ منظور

    میر حسن قیامت مجھ پہ سب اس کا ترحم اور تظلم تھا ۔ میر حسن

    قیامت مجھ پہ سب اس کا ترحم اور تظلم تھا کبھی تھیں گالیاں منھ پر کبھی لب پر تبسم تھا یہ سب اپنے خیالِ خام تھے تم تھے پرے سب سے جو کچھ سمجھے تھے ہم تم کو یہ سب اپنا توہّم تھا اب اُلٹے ہم ہی اِس کے حکم میں رہنے لگے ناصح وہ دفتر ہی گیا جو اپنا اِس دل پر تحکم تھا تمھیں بھی یاد آتے ہیں کبھی وے دن...
  15. فرخ منظور

    میر حسن نے ہوں چمن کا مائل نے گل کے رنگ و رُو کا ۔ میر حسن

    نے ہوں چمن کا مائل نے گل کے رنگ و رُو کا رنگِ وفا ہو جس میں بندہ ہوں اُس کی بو کا وہ ملکِ دل کہ اپنا آباد تھا کبھو کا سو ہو گیا ہے تجھ بن اب وہ مقام ہُو کا مت سہم دل مبادا یہ خون سوکھ جاوے آتا ہے تیر اس کا پیاسا ترے لہو کا غنچہ ہوں میں نہ گل کا نے گل ہوں میں چمن کا حسرت کا زخم ہوں میں اور داغ...
  16. فرخ منظور

    میر حسن ہوا سے زلف و رخ میں ہے سماں اے یار رونے کا ۔ میر حسن

    ہوا سے زلف و رخ میں ہے سماں اے یار رونے کا بندھا ہے شام سے لے تا سحر اک تار رونے کا خدا جانے کہ آخر رفتہ رفتہ حال کیا ہوئے ہوا ہے بے طرح آنکھوں کو کچھ آزار رونے کا ابھی گر لہر آوے گی مجھے تو دنگ ہوئے گا نہ کر ابر تو آگے مرے اظہار رونے کا اثر ہوئے نہ ہوئے پر بلا سے جی تو بہلے گا نکالا شغلِ...
  17. فرخ منظور

    میر حسن زنگِ الم کا صیقل ہو کیوں نہ یار رونا ۔ میر حسن

    زنگِ الم کا صیقل ہو کیوں نہ یار رونا روشن دلی کا باعث ہے شمع وار رونا جس جا پہ تم نے باتیں کی تھیں کھڑے ہو اک دن جب دیکھنا وہ جاگہ بے اختیار رونا آ لینے دے یہاں تک اُس گل کو ٹک تو رہ جا پھر ساتھ میرے مل کر ابرِ بہار رونا تو آ کے آستیں رکھ اس چشمِ تر پہ میری پاوے جہاں میں میرا تا اشتہار رونا...
  18. فرخ منظور

    میر حسن عشق کب تک آگ سینہ میں مِرے بھڑکائے گا ۔ میر حسن

    عشق کب تک آگ سینہ میں مِرے بھڑکائے گا راکھ تو میں ہو چکا کیا خاک اب سُلگائے گا لے چلی ہے اب تو قسمت تیرے کوچہ کی طرف دیکھیے پھر بھی خدا اس طرف ہم کو لائے گا کر چکے صحرا میں وحشت پھِر چکے گلیوں میں ہم دیکھیے اب کام ہم کو عشق کیا فرمائے گا نو گرفتاری کے باعث مضطرب صیّاد ہوں لگتے لگتے جی قفس میں...
  19. فرخ منظور

    میر حسن کروں شکوہ تو بے وسواس میں اُس سے نہ آنے کا ۔ میر حسن

    کروں شکوہ تو بے وسواس میں اُس سے نہ آنے کا نہ ہو دھڑکا مرے دل میں گر اُس کے روٹھ جانے کا وساطت سے کسی کی چھپ کے بھی چاہا نہ کچھ ورنہ کیا تھا ڈھب تو یاروں نے بہت اُس سے ملانے کا ترے پہلو سے اُٹھ جانے کا جتنا ہے الم ہم کو نہیں اتنا تو غم اپنے تئیں دل کے بھی جانے کا مجھے آتا ہے رونا دیکھ کر زانو...
  20. فرخ منظور

    میر حسن تیرا حسنؔ یہ رونا یونہی اگر رہے گا ۔ میر حسن

    تیرا حسنؔ یہ رونا یونہی اگر رہے گا ظالم تو پھر کسی کا کاہے کو گھر رہے گا تیرے ہی غم کا گھر ہے یہ دل جلا نہ اِس کو گر یہ جلا تو تیرا پھر غم کدھر رہے گا تربت پہ بے کسوں کی رکھیو نہ پھول کوئی گُل کی جگہ اُنھوں کا داغِ جگر رہے گا آنا ہے گر تو آ جا جلدی وگرنہ یہ دل یونہی تڑپ تڑپ کر کوئی دم میں مر...
Top