بیانِ اہلِ محبت بجز اشارہ نہیں
خموشیوں کے سوا اور کوئی چارہ نہیں
ادھر ہی لوٹ کے آئے گی پھر تری کشتی
یہ ایک موجۂ گرداب ہے کنارہ نہیں
یہ کہہ کے لوٹ گئی صحنِ گُل سے فصلِ بہار
کہ چشمِ اہلِ چمن در خورِ نظارہ نہیں
بھٹک رہا ہے کہاں تُو فضائے گردوں میں
جہانِ خاک میں کیا ایک بھی ستارہ نہیں؟
ہزار بار...