نتائج تلاش

  1. فرخ منظور

    پکوڑوں کی فضیلت

    رمادان میں پکوڑوں کو بکوڑے کہا جائے اس سے زیادہ ثواب حاصل ہو گا۔ کیونکہ عربی میں "پ" نہیں ہوتا۔
  2. فرخ منظور

    انور مسعود بجٹ میں نے دیکھے ہیں سارے ترے ۔ انور مسعود

    بجٹ میں نے دیکھے ہیں سارے ترے انوکھے انوکھے خسارے ترے اللے تللے ادھارے ترے بھلا کون قرضے اتارے ترے گرانی کی سوغات حاصل مرا محاصل ترے گوشوارے ترے مشیروں کا جمگھٹ سلامت رہے بہت کام جس نے سنوارے ترے مری سادہ لوحی سمجھتی نہیں حسابی کتابی اشارے ترے کئی اصطلاحوں میں گوندھے ہوئے کنائے ترے...
  3. فرخ منظور

    بابا بلھے شاہ اک نقطے وچ گل مکدی اے ۔ بلھے شاہ

    اک نقطے وچ گل مکدی اے پھڑ نقطہ چھوڑ حساباں نوں کر دور کفر دیاں باباں نوں چھڈ دوزخ گور عذاباں نوں کر صاف دلے دیاں خواباں نوں گل ایسے گھر وچ ڈھکدی اے اک نقطے وچ گل مکدی اے اینویں متھا زمین گھسائی دا پا لما محراب دکھائی دا پڑھ کلمہ لوک ہسائی دا دل اندر سمجھ نا لیائی دا کدی بات سچی بھی لکدی اے اک...
  4. فرخ منظور

    ولی دکنی طاقِ ابرو ترا حرم دستا ۔ ولی دکنی

    طاقِ ابرو ترا حرم دستا محرم اس کا عرب عجم دستا خط ترا سر نوشتِ عاشق میں حرفِ تقدیر کا رقم دستا خط ترا آئینہ سکندر ہے ہر دو عالم منیں عدم دستا لوحِ محفوظ ہے ترا رخسار زلف اس پر مگر قلم دستا تجھ زنخداں کے چاہ کنعاں میں یوسفِ مصر دم بہ دم دستا خط ترا ہے ضرور لشکرِ حسن کاکل اُس کے اُپر علم دستا...
  5. فرخ منظور

    میر حسن رو رو کے کیا ابتر سب کام مرے دل کا ۔ میر حسن

    رو رو کے کیا ابتر سب کام مرے دل کا کھویا مری آنکھوں نے آرام مرے دل کا آغازِ محبت میں دیکھا تو یہ کچھ دیکھا کیا جانیے کیا ہو گا انجام مرے دل کا جس دن سے ہوا پیدا اُس دن سے ہوا شیدا دیوانہ و سودائی ہے نام مرے دل کا طوفان ہے زلفوں پر بہتان ہے کاکل پر ہے رشتہ اُلفت ہی پر دام مرے دل کا جب تک میں...
  6. فرخ منظور

    اختر شیرانی بھلا کیوں کر نہ ھوں راتوں کو نیندیں بے قرار اس کی (اختر شیرانی)

    غزل بھلا کیوں کر نہ ہو راتوں کو نیندیں بے قرار اُس کی کبھی لہرا چکی ہو جس پہ زُلفِ مشکبار اُس کی اُمیدِ وصل پر، دل کو فریبِ صبر کیا دیجے ادا وحشی صفت اُس کی، نظر بے گانہ وار اُس کی محبت تھی، مگر یہ بے قراری تو نہ تھی پہلے الٰہی آج کیوں یاد آتی ہے بے اختیار اُس کی؟ تجھے تو عشق پیچاں جیسے بل...
  7. فرخ منظور

    بابا بلھے شاہ کیہہ بے درداں دے سنگ یاری ۔ بلھے شاہ

    کیہہ بے درداں دے سنگ یاری روون اکّھیاں زار و زاری سانوں گئے بے دردی چھڈ کے سینے سانگ ہجر دی گڈ کے جسموں جند نوں لے گئے کڈھ کے ایہہ گل کر گئے ہینسیاری کیہہ بے درداں دے سنگ یاری روون اکّھیاں زار و زاری بے درداں دا کیہہ بھرواسا خوف نہیں دل اندر ماسا چڑیاں موت، گواراں ہاسا مگروں ہس ہس تاڑی ماری...
  8. فرخ منظور

    یوسفی ہوئے مر کے جو ہم رسوا۔

    کیا یہ مضمون مکمل ہے اور یہ کس کتاب سے لیا گیا ہے؟
  9. فرخ منظور

    ہر شخص بن گیا ہے خدا تیرے شہر میں ۔ نظیر صدیقی

    ہر شخص بن گیا ہے خدا تیرے شہر میں کس کس کے در پہ مانگیں دعا تیرے شہر میں مجرم ہیں سارے اہلِ وفا تیرے شہر میں کیا خوب ہے وفا کا صلہ تیرے شہر میں اہلِ ہوس کے نام سے ہیں روشناس خلق ملتی ہے جن کو دادِ وفا تیرے شہر میں رکھتے ہیں لوگ تہمتیں اپنے نصیب پر کرتے ہیں یوں بھی تیرا گلا تیرے شہر میں...
  10. فرخ منظور

    خود فریبی نے بے شک سہارا دیا اور طبیعت بظاہر بہلتی رہی ۔ نظیر صدیقی

    خود فریبی نے بے شک سہارا دیا اور طبیعت بظاہر بہلتی رہی ایک کانٹا سا دل میں کھٹکتا رہا ایک حسرت سی دل کو مسلتی رہی اپنے غم کو ہمیشہ بھلایا کئے کثرتِ کار میں سیرِ بازار میں الغرض کسمپرسی کے عالم میں بھی زندہ رہنے کی صورت نکلتی رہی عقل کی برتری دل نے مانی تو کیا اس نے چاہا کبھی عقل کا مشورہ...
  11. فرخ منظور

    تبسم سنے قہقہے تو سن لو یہ فغانِ چشمِ تر بھی ۔ صوفی تبسم

    توجہ دلانے کے لیے شکریہ عاطف بھائی۔ دراصل یہ غزلیات کافی عرصہ قبل ٹائپ کی تھیں اور القلم فورم کے ساتھ ہی دریا برد ہو گئیں۔ کچھ غزلیات ملی ہیں اسی لیے یہاں پوسٹ کی ہیں۔ ویسے کلیاتِ صوفی تبسم میں بہت سی اغلاط ہیں۔ میرے خیال میں یہ اغلاط کلیات میں بھی ہوں گی لیکن پھر بھی شام کو گھر جا کر کلیات سے...
  12. فرخ منظور

    تبسم افسانہ ہائے درد سناتے چلے گئے ۔ صوفی تبسم

    افسانہ ہائے درد سناتے چلے گئے خود روئے دوسروں کو رلاتے چلے گئے بھرتے رہے الم میں فسونِ طرب کا رنگ ان تلخیوں میں زہر ملاتےچلے گئے اپنے نیازِ شوق پہ تھا زندگی کو ناز ہم زندگی کے ناز اٹھاتےچلے گئے ہر اپنی داستاں کو کہا داستانِ غیر یوں بھی کسی کا راز چھپاتےچلے گئے میں جتنا ان کی یاد بھلاتا چلا...
  13. فرخ منظور

    تبسم سنے قہقہے تو سن لو یہ فغانِ چشمِ تر بھی ۔ صوفی تبسم

    سنے قہقہے تو سن لو یہ فغانِ چشمِ تر بھی کہ ہے داستاں میں شامل یہ حدیثِ مختصر بھی جو وہ دن گزر گیا تھا تو یہ رات بھی کٹے گی کبھی شام آ گئی تھی کبھی آئے گی سحر بھی یہ عجیب رہ روی ہے کہ الجھ گئی ہیں راہیں مجھے ڈر ہے کھو نہ جائے کہیں تیری رہ گزر بھی ترے حسن سے شگفتہ ہوئیں مضمحل نگاہیں جو سنور گئے...
  14. فرخ منظور

    تبسم پھول تو ہیں پھول کانٹوں سے سنور جائے بہار ۔ صوفی تبسم

    پھول تو ہیں پھول کانٹوں سے سنور جائے بہار اب کے آئے تو ہر اِک شے میں اتر جائے بہار اہتمامَ ہاو ہُو کر پر کہیں ایسا نہ ہو صحنِ گلشن سے دبے پاؤں گزر جائے بہار گُل نہیں ہنستے تو کانٹوں سے لپٹ کر روئیے کچھ تو ہو رنگَ چمن، کچھ تو نکھر جائے بہار ہر روش پر اِک نئے دورِ خزاں کی الجھنیں اب تمہیں کہہ...
  15. فرخ منظور

    تبسم بند ہو جائے مری آنکھ اگر ۔ صوفی تبسم

    بند ہو جائے مری آنکھ اگر بند ہو جائے مری آنکھ اگر اس دریچے کو کھلا رہنے دو یہ دریچہ ہے افق آئینہ اس میں رقصاں ہیں جہاں کے منظر اس دریچے کو کھلا رہنے دو اس دریچے سے ابھرتی دیکھی چاند کی شام ستاروں کی سحر اِس دریچے کو کھلا رہنے دو اس دریچے سے کیے ہیں میں نے کئی بے چشم نظارے کئی بے راہ سفر اِس...
  16. فرخ منظور

    تبسم دل کو جب بے کلی نہیں ہوتی ۔ صوفی تبسم

    دل کو جب بے کلی نہیں ہوتی زندگی، زندگی نہیں ہوتی جان پر کھیلتے ہیں اہلِ وفا عاشقی دل لگی نہیں ہوتی کیا کرو گے کسی کی دل داری تم سے تو دل بری نہیں ہوتی موت کی دھمکیاں نہ دو ہم کو موت کیا زندگی نہیں ہوتی؟ غور سے دیکھتا ہوں جب تم کو میری ہستی مری نہیں ہوتی عشق میں ہوشیاریاں بھی ہوتی ہیں محض...
  17. فرخ منظور

    تبسم وہ دامنِ ستم یونہی گردانتے رہے ۔ صوفی تبسم

    وہ دامنِ ستم یونہی گردانتے رہے ہم آپ اپنے دل کا کہا مانتے رہے کوئی نہ مل سکا رہِ ہستی میں آشنا ہم رہروؤں کی صورتیں پہچانتے رہے تم نے غبارِ راہ سمجھ کر اڑا دیا ہم یونہی خاکِ کوئے وفا چھانتے رہے ہم سے ہے بڑھ کے کون جہاں میں خدا پرست ہم لوگ تو صنم کو خدا مانتے رہے کچھ اشک ہائے گرم تھے، کچھ خندہ...
  18. فرخ منظور

    تبسم نہ کر سکیں انھیں برسوں کی آندھیاں مدّھم ۔ صوفی تبسم

    نہ کر سکیں انھیں برسوں کی آندھیاں مدّھم یہ کون چھوڑ گیا لوحِ دل پہ نقشِ قدم ہزار دورِ خزاں سے گزر کے آئے ہیں عجیب رنگ سے گزرا بہار کا موسم ابھی ہے چاند ستاروں کی روشنی مدّھم ابھی ہے شام کے چہرے پہ پَرتوِ شبِ غم گزرنا ہو گیا دشوار رہگزاروں سے یہ کس کے پاؤں کی آہٹ کو سن رہے ہیں ہم ستارے بن کے...
  19. فرخ منظور

    تبسم لے کے چلاہوں تابِ نظارہ، نظر کے ساتھ ۔ صوفی تبسم

    لے کے چلاہوں تابِ نظارہ، نظر کے ساتھ کچھ زادِ رہ بھی چاہیے عزمِ سفر کے ساتھ آزاد تو ہوئے ہیں اسیرانِ ہم صفیر لیکن قفس کے تنکے لیے بال و پر کے ساتھ ہر مرحلے پہ اِک نئی منزل ہے سامنے چلتا ہوں ہر قدم پہ نئے راہبر کے ساتھ حسرت سے آنکھ دیکھنے والے نے پھیر لی نظریں لپٹ کے رہ گئیں دیوار و در کے ساتھ...
Top