میر حسن کروں شکوہ تو بے وسواس میں اُس سے نہ آنے کا ۔ میر حسن

فرخ منظور

لائبریرین
کروں شکوہ تو بے وسواس میں اُس سے نہ آنے کا
نہ ہو دھڑکا مرے دل میں گر اُس کے روٹھ جانے کا

وساطت سے کسی کی چھپ کے بھی چاہا نہ کچھ ورنہ
کیا تھا ڈھب تو یاروں نے بہت اُس سے ملانے کا

ترے پہلو سے اُٹھ جانے کا جتنا ہے الم ہم کو
نہیں اتنا تو غم اپنے تئیں دل کے بھی جانے کا

مجھے آتا ہے رونا دیکھ کر زانو کو اب اپنے
کہ تھا اک وقت میں تکیہ کسی کے یہ سرہانے کا

رقیبِ رو سیہ کی بات پر مت گوش رکھیو تو
کیا ہے فکر اِس نے میرے اور تیرے لڑانے کا

(ق)
حسنؔ تو ہر کسی سے حالِ دل کہتا پھرے ہے کیوں
عبث بدنام ہو گا اور نہیں کچھ اِس میں پانے کا

ملامت ہی کریں گے اور اُلٹی تجھ کو ہنس ہنس کر
کوئی احوال پر تیرے نہیں افسوس کھانے کا

(میر حسنؔ)
 
Top