نتائج تلاش

  1. فرخ منظور

    فیض بَلیک آؤٹ ۔ فیض احمد فیض

    بَلیک آؤٹ جب سے بے نور ہوئی ہیں شمعیں خاک میں ڈھونڈتا پھرتا ہوں نہ جانے کس جا کھو گئی ہیں میری دونوں آنکھیں تم جو واقف ہو بتاؤ کوئی پہچان مری اس طرح ہے کہ ہر اِک رگ میں اُتر آیا ہے موج در موج کسی زہر کا قاتل دریا تیرا ارمان، تری یاد لیے جان مری جانے کس موج میں غلطاں ہے کہاں دل میرا ایک پل...
  2. فرخ منظور

    فیض تری اُمید ترا انتظار جب سے ہے ۔ فیض احمد فیض

    تری اُمید ترا انتظار جب سے ہے نہ شب کو دن سے شکایت ، نہ دن کو شب سے ہے کسی کا درد ہو کرتے ہیں تیرے نام رقم گِلہ ہے جو بھی کسی سے ترے سبب سے ہے ہُوا ہے جب سے دلِ ناصبُور بے قابو کلام تجھ سے نظر کو بڑے ادب سے ہے اگر شررِ ہے تو بھڑکے ، جو پھول ہے تو کِھلے طرح طرح کی طلب ، تیرے رنگِ لب سے ہے...
  3. فرخ منظور

    میر کیسی وفا و اُلفت، کھاتے عبث ہو قسمیں ۔ میر تقی میر

    کیسی وفا و اُلفت، کھاتے عبث ہو قسمیں مدت ہوئی اٹھا دیں تم نے یہ ساری رسمیں ساون تو اب کے ایسا برسا نہیں، جو کہیے روتا رہا ہوں میں ہی دن رات اس برس میں گھبرا کے یوں لگے ہے سینے میں دل تڑپنے جیسے اسیرِ تازہ بے تاب ہو قفس میں جاں کاہ ایسے نالے لوہے سے تو نہ ہوویں بے تاب دل کسو کا رکھا ہے کیا...
  4. فرخ منظور

    تبسم ہو وصل کی شب یا شبِ فرقت، نہیں جاتی ۔ صوفی تبسّم

    ہو وصل کی شب یا شبِ فرقت، نہیں جاتی جاتی نہیں بے تابیِ الفت، نہیں جاتی میخانے میں آ کر بھی وہی توبہ کی تلقین واعظ یہ تری وعظ کی عادت نہیں جاتی یاں گردشِ ساغر ہے وہاں گردشِ دوراں افلاک کی رندوں سے رقابت نہیں جاتی ہر روز تبسّم ہے تجھے ہجر کا رونا کم بخت تری شومیِ قسمت نہیں جاتی (صوفی تبسّم)
  5. فرخ منظور

    اسکین دستیاب سید سبط علی صبا کا مجموعہ کلام "ابرِ سنگ" ڈاؤنلوڈ کریں۔

    دیوا کیا گری میرے خستہ مکان کی لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنا لیے (سید سبط علی صبا) سید سبط علی صبا کا مجموعہ کلام "ابرِ سنگ" ڈاؤنلوڈ کریں۔ ربط
  6. فرخ منظور

    میر شعر دیواں کے میرے کر کر یاد ۔ میر تقی میر

    شعر دیواں کے میرے کر کر یاد مجنوں کہنے لگا کہ "ہاں استاد!" خود کو عشقِ بتاں میں بھول نہ جا متوکّل ہو، کر خدا کو یاد سب طرف کرتے ہیں نکویاں کی کس سے جا کر کوئی کرے فریاد وحشی اب گرد باد سے ہم ہیں عمر افسوس کیا گئی برباد چار دیواریِ عناصر میر خوب جاگہ ہے، پر ہے بے بنیاد (میر تقی میر)...
  7. فرخ منظور

    فیض ترے غم کو جاں کی تلاش تھی ترے جاں نثار چلے گئے ۔ فیض

    ترے غم کو جاں کی تلاش تھی ترے جاں نثار چلے گئے تری رہ میں کرتے تھے سر طلب ، سرِ رہگزار چلے گئے تری کج ادائی سے ہار کے شبِ انتظار چلی گئی مرے ضبطِ حال سے رُوٹھ کر مرے غم گسار چلے گئے نہ سوالِ وصل ، نہ عرضِ غم ، نہ حکایتیں نہ شکایتیں ترے عہد میں دلِ زار کے سبھی اختیار چلے گئے یہ ہمیں تھے جن...
  8. فرخ منظور

    تبسم لگانا دل کسی نامہرباں سے ۔ صوفی تبسّم

    لگانا دل کسی نامہرباں سے زمیں کی دوستی ہے آسماں سے نظر آتے تھے تم تو بے زباں سے یہ باتیں آ گئیں تم کو کہاں سے نظر آتے ہیں وہ کچھ مہرباں سے گرے گی کوئی بجلی آسماں سے یہ ننگِ عجز ہے اک بار رکھ کر اٹھانا سر کسی کے آستاں سے وصالِ جاودانی چاہتا ہوں مگر وہ زندگی لاؤں کہاں سے سنا دوں داستانِ...
  9. فرخ منظور

    تبسم بہت مضطر، بہت درد آشنا دل ۔ صوفی تبسّم

    بہت مضطر، بہت درد آشنا دل عجب آفت کا ٹکڑا ہے مرا دل وفا کیا اور وفا کا تذکرہ کیا تمہارے سامنے جب رکھ دیا دل یہ دل میں تُو نے پیکاں رکھ دیا ہے کہ دل میں رکھ دیا اِک دوسرا دل ہم اپنے دل کی حالت سن کے روئے ہمارا حال سن کر رو دیا دل یہ بجلی ہے کہ شعلہ ہے کہ سیماب مرے آغوش میں ہے کیا بلا دل...
  10. فرخ منظور

    فیض پیکنگ ۔ فیض احمد فیض

    پیکنگ یوں گماں ہوتا ہے بازو ہیں مرے ساٹھ کروڑ اور آفاق کی حد تک مرے تن کی حد ہے دل مرا کوہ و دمن دشت و چمن کی حد ہے میرے کیسے میں ہے راتوں کا سیہ فام جلال میرے ہاتھوں میں ہے صبحوں کی عنانِ گلگوں میری آغوش میں پلتی ہے خدائی ساری میرے مقدور میں ہے معجزۂ کُن فَیَکُوں
  11. فرخ منظور

    شیفتہ یوں پاس بوالہوس رہیں چشمِ غضب سے دور ۔ شیفتہ

    یوں پاس بوالہوس رہیں چشمِ غضب سے دور یہ بات ہے بڑی دلِ عاشق طلب سے دور دیوانہ میں نہیں کہ انا لیلیٰ لب پہ آئے باتیں خلافِ وضع ہیں اہلِ ادب سے دور مجھ کو سنا کے کہتے ہیں ہمدم سے، یاد ہے؟ اک آدمی کو چاہتے تھے ہم بھی اب سے دور جو لطف میں بھی پاس پھٹکنے نہ دے کبھی رکھیو الٰہی! ایسے کے مجھ کو...
  12. فرخ منظور

    شیفتہ اُٹھے نہ چھوڑ کے ہم آستانِ بادہ فروش ۔ شیفتہ

    اُٹھے نہ چھوڑ کے ہم آستانِ بادہ فروش طلسمِ ہوش ربا ہےدکانِ بادہ فروش کھلا جو پردہ روئے حقائقِ اشیاء کھلی حقیقتِ رازِ نہانِ بادہ فروش فسردہ طینتی و کاہلی سے ہم نے کبھی شباب میں بھی نہ دیکھی دکانِ بادہ فروش یقین ہے کہ مئے ناب مفت ہاتھ آئے یہ جی میں ہے کہ بنوں میہمانِ بادہ فروش قدح سے دل ہے...
  13. فرخ منظور

    تبسم زیرِ چرخ و سرزمیں نہ رہے ۔ صوفی تبسّم

    زیرِ چرخ و سرزمیں نہ رہے مجھ کو کہتے ہیں تو کہیں نہ رہے آج سجدوں کی انتہا کر دوں شوق مٹ جائے یا جبیں نہ رہے ہم اٹھائیں نہ گر ترے صدمے آسماں کے تلے زمیں نہ رہے عشرتِ وصل کے ہوں ہم قائل آج یہ دل اگر حزیں نہ رہے خاکساروں کا ذکر ہی کیا ہے اس زمیں پر فلک نشیں نہ رہے رہتی ہے کچھ روز اور بزمِ...
  14. فرخ منظور

    یہ دستیاب عورتیں ۔ ثمینہ راجا

    یہ دستیاب عورتیں یہ بے حجاب عورتیں × جنہوں نے سارے شہر کو کمالِ عشوہ و ادا سے شیوہء جفا نما سے بے قرار اور نڈھال کر رکھا تھا جانے کون چور راستوں سے کوچہء سخن میں آ کے بس گئیں کسی سے سُن رکھا تھا ۔۔۔ '' یاں فضائے دل پذیر ہے ہر ایک شخص اس گلی کا، عاشق ِ نگاہِ دلبری معاملاتِ شوق و حسن و عشق کا...
  15. فرخ منظور

    شیفتہ جی داغِ غمِ رشک سے جل جائے تو اچھا ۔ شیفتہ

    جی داغِ غمِ رشک سے جل جائے تو اچھا ارمان عدو کا بھی نکل جائے تو اچھا پروانہ بنا میرے جلانے کو وفادار محفل میں کوئی شمع بدل جائے تو اچھا کس چین سے نظارہ ہر دم ہو میسر دل کوچۂ دشمن میں بہل جائے تو اچھا تم غیر کے قابو سے نکل آؤ تو بہتر حسرت یہ مرے دل کی نکل جائے تو اچھا سودا زدہ کہتے ہیں،...
  16. فرخ منظور

    تبسم دن زندگی کے کیسے کٹیں گے بہار میں ۔ صوفی تبسّم

    دن زندگی کے کیسے کٹیں گے بہار میں تم اختیار میں ہو نہ دل اختیار میں صبحِ وصال ہے نہ وہ اب شامِ انتظار اب کیا رہا ہے گردشِ لیل و نہار میں وہ نازنین ہے محوِ تماشائے صحنِ گل یا اور اک بہار کھلی ہے بہار میں اِک مے گسار جام بکف ایک تشنہ کام کیا وسعتیں ہیں بخششِ پروردگار میں دنیا سے بے خبر،...
  17. فرخ منظور

    ظہیر کاشمیری ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغِ آخرِ شب ۔ ظہیر کاشمیری

    یہ کاروبارِ چمن اس نے جب سنبھالا ہے فضا میں لالہ و گُل کا لہو اچھالا ہے ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغِ آخرِ شب ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے ہجومِ گُل میں چہکتے ہوئے سمن پوشو! زمینِ صحنِ چمن آج بھی جوالا ہے ہمارے عشق سے دردِ جہاں عبارت ہے ہمارا عشق، ہوس سے بلند و بالا ہے سنا ہے آج کے دن...
  18. فرخ منظور

    ظہیر کاشمیری یادگارِ بادہ و پیمانہ ہیں ۔ ظہیر کاشمیری

    یادگارِ بادہ و پیمانہ ہیں ہم چراغِ کشتۂ میخانہ ہیں چند تنکوں میں نہ تھا لطفِ بہار چند شعلے زینتِ کاشانہ ہیں ہر حقیقت ہے فریبِ اعتبار یہ حسیں جلوے اگر افسانہ ہیں ہم بھی مہر و ماہ سے باتیں کریں ہم بھی عکسِ جلوۂ جانانہ ہیں شب جو تھے محوِ طوافِ شمعِ ناز صبحدم خاکسترِ پروانہ ہیں بُت پرستو...
  19. فرخ منظور

    ظہیر کاشمیری موسم بدلا، رُت گدرائی اہلِ جنوں بے باک ہوئے ۔ ظہیر کاشمیری

    موسم بدلا، رُت گدرائی اہلِ جنوں بے باک ہوئے فصلِ بہار کے آتے آتے کتنے گریباں چاک ہوئے گُل بوٹوں کے رنگ اور نقشے، اب تو یونہی مٹ جائیں گے ہم کہ فروغِ صبحِ چمن تھے، پابندِ فتراک ہوئے مہرِ تغیّر اس دھج سے آفاق کے ماتھے پر چمکا! صدیوں کے افتادہ ذرّے، ہم دوشِ افلاک ہوئے دل کے غم نے دردِ جہاں سے...
  20. فرخ منظور

    خراجِ تحسین ۔ پنڈت روی شنکر

    ستار پر راگ پیلو میں ٹھمری ۔ پنڈت روی شنکر
Top