تبسم بہت مضطر، بہت درد آشنا دل ۔ صوفی تبسّم

فرخ منظور

لائبریرین
بہت مضطر، بہت درد آشنا دل
عجب آفت کا ٹکڑا ہے مرا دل

وفا کیا اور وفا کا تذکرہ کیا
تمہارے سامنے جب رکھ دیا دل

یہ دل میں تُو نے پیکاں رکھ دیا ہے
کہ دل میں رکھ دیا اِک دوسرا دل

ہم اپنے دل کی حالت سن کے روئے
ہمارا حال سن کر رو دیا دل

یہ بجلی ہے کہ شعلہ ہے کہ سیماب
مرے آغوش میں ہے کیا بلا دل

ہر اِک سے ہے وفا کی تم کو امّید
ہر اِک دل کو سمجھتے ہو مرا دل

اسے جنبش نہیں ہوتی فغاں سے
خدا نے کیا بنایا ہے ترا دل

تبسّم ہے عجب واژونیِ بخت
میں ہنستا ہوں تو روتا ہے مرا دل

(صوفی تبسّم)
 
Top