نتائج تلاش

  1. فرخ منظور

    میر مطلق نہیں ادھر ہے اس دل ربا کی خواہش۔ میر تقی میر

    مطلق نہیں ادھر ہے اس دل ربا کی خواہش کیا جانیے کہ کیا ہے یارو خدا کی خواہش دیکھیں تو تیغ اس کی اب کس کے سر چڑھے ہے رکھتے ہیں یار جی میں اُس کی جفا کی خواہش لعلِ خموش اپنے دیکھو ہو آرسی میں پھر پوچھتے ہو ہنس کر مجھ بے نوا کی خواہش اقلیمِ حسن سے ہم دل پھیر لے چلے ہیں کیا کریے یاں نہیں ہے...
  2. فرخ منظور

    تبسم فسانہ ہائے درد سناتے چلے گئے ۔ صوفی تبسّم

    افسانہ ہائے درد سناتے چلے گئے خود روئے دوسروں کو رلاتے چلے گئے بھرتے رہے الم میں فسونِ طرب کا رنگ ان تلخیوں میں زہر ملاتےچلے گئے اپنے نیازِ شوق پہ تھا زندگی کو ناز ہم زندگی کے ناز اٹھاتےچلے گئے ہر اپنی داستاں کو کہا داستانِ غیر یوں بھی کسی کا راز چھپاتےچلے گئے میں جتنا ان کی یاد بھلاتا...
  3. فرخ منظور

    میر کیا کہیے کیا رکھے ہیں ہم تجھ سے یار خواہش ۔ میر تقی میر

    کیا کہیے کیا رکھے ہیں ہم تجھ سے یار خواہش یک جان و صد تمنّا، یک دل ہزار خواہش لے ہاتھ میں قفس ٹک، صیّاد چل چمن تک مدّت سے ہے ہمیں بھی سیرِ بہار خواہش نَے کچھ گنہ ہے دل کا نےَ جرمِ چشم اس میں رکھتی ہے ہم کو اتنا بے اختیار خواہش حالآنکہ عمر ساری مایوس گزری تس پر کیا کیا رکھیں ہیں اس کے...
  4. فرخ منظور

    حاسد لگے ہوئے ہیں اسی اک سراغ میں ۔ حامد بھنسالوی

    بشکریہ اشہد سید حاسد لگے ہوئے ہیں اسی اک سراغ میں آتا کہاں سے تیل ہے اس کے چراغ میں دو چار شعر پر انہیں کچھ داد کیا ملی وہ عیب ڈھونڈنے لگے غالب میں داغ میں (حامد بھنسالوی)
  5. فرخ منظور

    تبسم تمناؤں کی دنیا جگمگائی ۔ صوفی تبسّم

    تمناؤں کی دنیا جگمگائی یہ کس رنگیں ادا کی یاد آئی نگاہِ شوق کو رسوا کرے گی تری جلووں کی شانِ خود نمائی وہ طوفانِ ہوس تھا آرزو کا کہ ناموسِ محبت ڈگمگائی محبت کی خموشی بھی فسانہ محبت کی فغاں بھی خوش نوائی محبّت کا وہ سنگِ آستاں ہے لرزتی ہے جبینِ پارسائی ہنسی کیا آئی ان نازک لبوں پر...
  6. فرخ منظور

    فیض کیا کریں ۔ فیض احمد فیض

    کیا کریں مری تری نگاہ میں جو لاکھ انتظار ہیں جو میرے تیرے تن بدن میں لاکھ دل فگار ہیں جو میری تیری انگلیوں کی بے حسی سے سب قلم نزار ہیں جو میرے تیرے شہر کی ہر اک گلی میں میرے تیرے نقش ِ پا کے بے نشاں مزار ہیں جو میری تیری رات کے ستارے زخم زخم ہیں جو میری تیری صبح کے گلاب چاک چاک ہیں یہ زخم...
  7. فرخ منظور

    تبسم رسمِ مہر و وفا کی بات کریں ۔ صوفی تبسّم

    رسمِ مہر و وفا کی بات کریں پھر کسی دل ربا کی بات کریں سخت بیگانۂ حیات ہے دل آؤ اس آشنا کی بات کریں زلف و رُخسار کے تصوّر میں حسن و ناز و ادا کی بات کریں گیسوؤں کے فسانے دہرائیں اپنے بختِ رسا کی بات کریں مدّعائے وفا کسے معلوم دلِ بے مدّعا کی بات کریں کشتیِ دل کا ناخدا دل ہے کیوں کسی...
  8. فرخ منظور

    چاند کی کٹوری ہے، رات یہ چٹوری ہے ۔ ہرش دیپ کور

    چاند کی کٹوری ہے، رات یہ چٹوری ہے گلوکارہ: ہرش دیپ کور موسیقی: سنجے لیلا بھنسالی فلم: گذارش
  9. فرخ منظور

    فیض جلا پھر صبر کا خرمن، پھر آہوں کا دھواں اٹھّا ۔ فیض احمد فیض

    جلا پھر صبر کا خرمن، پھر آہوں کا دھواں اٹھّا ہوا پھر نذرِ صرصر ہر نشیمن کا ہر اِک تنکا ہوئی پھر صبحِ ماتم آنسوؤں سے بھر گئے دریا چلا پھر سوئے گردوں کاروانِ نالۂ شب ہا ہر اِک جانب فضا میں پھر مچا کہرامِ یارب ہا امڈ آئی کہیں سے پھر گھٹا وحشی زمانوں کی فضا میں بجلیاں لہرائیں پھر سے تازیانوں کی...
  10. فرخ منظور

    قدم قدم پہ کسی امتحاں کی زد میں ہے ۔ آفتاب حسین

    قدم قدم پہ کسی امتحاں کی زد میں ہے زمین اب بھی کہیں آسماں کی زد میں ہے ہر ایک گام اُلجھتا ہوں اپنے آپ سے میں وہ تیر ہوں جو خود اپنی کماں کی زد میں ہے وہ بحر ہوں جو خود اپنے کنارے چاٹتا ہے وہ لہر ہوں کہ جو سیلِ رواں کی زد میں ہے میں اپنی ذات پہ اصرار کر رہا ہوں، مگر یقیں کا کھیل مسلسل گماں...
  11. فرخ منظور

    تبسم کاوشِ بیش و کم کی بات نہ کر ۔ صوفی تبسّم

    کاوشِ بیش و کم کی بات نہ کر چھوڑ دام و درم کی بات نہ کر دیکھ کیا کر رہے ہیں اہلِ زمیں آسماں کے ستم کی بات نہ کر اپنی آہ و فغاں کے سوز کو دیکھ ساز کے زیر و بم کی بات نہ کر یوں بھی طوفانِ غم ہزاروں ہیں عشق کی چشمِ نم کی بات نہ کر سخت الجھی ہیں زیست کی راہیں زلف کے پیچ و خم کی بات نہ کر...
  12. فرخ منظور

    فیض سبھی کچھ ہے تیرا دیا ہوا، سبھی راحتیں، سبھی کلفتیں ۔ فیض احمد فیض

    سبھی کچھ ہے تیرا دیا ہوا، سبھی راحتیں، سبھی کلفتیں کبھی صحبتیں، کبھی فرقتیں، کبھی دوریاں، کبھی قربتیں یہ سخن جو ہم نے رقم کیے، یہ ہیں سب ورق تری یاد کے کوئی لمحہ صبحِ وصال کا، کئی شامِ ہجر کی مدّتیں جو تمہاری مان لیں ناصحا، تو رہے گا دامنِ دل میں کیا نہ کسی عدو کی عداوتیں، نہ کسی صنم کی...
  13. فرخ منظور

    تبسم سخت افسردہ ہو گئے ہیں ہم ۔ صوفی تبسّم

    سخت افسردہ ہو گئے ہیں ہم اے غمِ دوست ایک نگاہِ کرم کون اٹھ کر گیا ہے محفل سے بزم کی بزم ہو گئی برہم عشق نے یوں کہا افسانۂ درد حسن کی آنکھ بھی ہوئی پرنم نہ جھکے گا یہ سر کسی در پر مجھ کو تیرے ہی آستاں کی قسم اپنی ناکام آرزوؤں کو کس تمنّا سے دیکھتے ہیں ہم کیسی کیسی خزاں سے گزرے ہیں خوب...
  14. فرخ منظور

    کلاسیکی موسیقی برسن لاگی بدریا رُوم جھوُم کے ۔ فنکارہ: گرجا دیوی (کجری، برسات کا ایک گیت)

    برسن لاگی بدریا رُوم جھوُم کے ۔ فنکارہ: گرجا دیوی (کجری، برسات کا ایک گیت)
  15. فرخ منظور

    کلاسیکی موسیقی بھیجی (بھیگی) جاؤں میں پیا ۔ فنکارہ: گرجا دیوی (کجری، برسات کا ایک گیت)

    بھیجی (بھیگی) جاؤں میں پیا ۔ فنکارہ: گرجا دیوی (کجری، برسات کا ایک گیت)
  16. فرخ منظور

    فیض چاند نکلے کسی جانب تری زیبائی کا ۔ فیض احمد فیض

    چاند نکلے کسی جانب تری زیبائی کا رنگ بدلے کسی صورت شبِ تنہائی کا دولتِ لب سے پھر اے خسروِ شیریں دہناں آج ارزاں ہو کوئی حرف شناسائی کا گرمیِ رشک سے ہر انجمنِ گُل بدناں تذکرہ چھیڑے تری پیرہن آرائی کا صحنِ گلشن میں کبھی اے شہِ شمشاد قداں پھر نظر آئے سلیقہ تری رعنائی کا ایک بار اور مسیحائے...
  17. فرخ منظور

    تبسم شجر شجر نگراں ہے کلی کلی بیدار ۔ صوفی تبسّم

    شجر شجر نگراں ہے کلی کلی بیدار نہ جانے کس کی نگاہوں کو ڈھونڈتی ہے بہار کبھی فغاں بھی نشاط و طرب کا افسانہ کبھی ہنسی بھی تڑپتے ہوئے دلوں کی پکار نہ جانے کس کے نشانِ قدم سے ہیں محروم کہ ایک عمر سے سونے پڑے ہیں راہگزار عجیب حال ہے بےتابیِ محبّت کا شبِ وصال کی راحت میں ڈھونڈتی ہے قرار یہ...
  18. فرخ منظور

    شاد عظیم آبادی ‫اسیرِ جسم ہوں، معیادِ قید لا معلوم ۔ شاد عظیم آبادی

    ‫اسیرِ جسم ہوں، معیادِ قید لا معلوم یہ کس گناہ کی پاداش ہے خدا معلوم تری گلی بھی مجھے یوں تو کھینچتی ہے بہت دراصل ہے مری مٹی کہاں کی کیا معلوم تعلقات کا الجھاؤ ہر طرح ظاہر گرہ کشائیِ تقدیرِ نارسا معلوم سفر ضرور ہے اور عذر کی مجال نہیں مزا تو یہ ہے نہ منزل، نہ راستا معلوم دعا کروں نہ کروں...
  19. فرخ منظور

    فیض ہم تو مجبورِ وفا ہیں ۔ فیض احمد فیض

    ہم تو مجبورِ وفا ہیں تجھ کو کتنوں کا لہو چاہیے اے ارضِ وطن جو ترے عارضِ بے رنگ کو گلنار کرے کتنی آہوں سے کلیجہ ترا ٹھنڈا ہو گا کتنے آنسو ترے صحراؤں کو گلزار کریں تیرے ایوانوں میں پرزے ہوے پیماں کتنے کتنے وعدے جو نہ آسودۂ اقرار ہوے کتنی آنکھوں کو نظر کھا گئی بدخواہوں کی خواب کتنے تری...
  20. فرخ منظور

    فیض یہ ماتمِ وقت کی گھڑی ہے ۔ فیض احمد فیض

    یہ ماتمِ وقت کی گھڑی ہے ٹھہر گئی آسماں کی ندیا وہ جا لگی افق کنارے اداس رنگوں کی چاندنیّا اتر گئے ساحلِ زمیں پر سبھی کھویّا تمام تارے اکھڑ گئی سانس پتیوں کی چلی گئیں اونگھ میں ہوائیں گجر بچا حکمِ خامشی کا تو چپ میں گم ہوگئی صدائیں سحر کی گوری کی چھاتیوں سے ڈھلک گئی تیرگی کی چادر اور اس بجائے...
Top