اس کا خیال چشم سے سب خواب لے گیا
قسمی کہ عشق جی سے مری تاب لے گیا
کن نیندوں اب تو سوتی ہے اے چشمِ گریہ ناک
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا
آوے جو مصطبع میں تو سن لو کہ راہ سے
واعظ کو ایک جامِ مئے ناب لے گیا
نَے دل رہا بجا ہے نہ صبر و حواس و ہوش
آیا جو سیلِ عشق سب اسباب لے گیا
میرے حضور شمع...
سپنوں کے شرمیلے سا ئے، رات کا نیلا شور، من ساگر کی اور
دور کھڑا مہکائے، مسکا ئے، البیلا چت چور، من ساگر کی اور
رنگ برنگ امنگ پتنگ کی بادل سنگ اڑان، سورج کی مسکان
کرنوں کی رم جھم سے کھیلے، مست نظر کی ڈ ور، من ساگر کی اور
خوں ریزوں پر کندہ کر کے، تیرا اجلا نام، جھومیں خواب تمام
اسی لئے شب بھر...
روش روش پہ ترا انتظار ہے ساقی
بہار منتظرِ نوبہار ہے ساقی
حوادثات سے ٹکرا نہ جائے سازِ حیات
غمِ جہاں سے غمِ دل دو چار ہے ساقی
سحر فسردہ ہے، شام اداس اداس
عجیب گردشِ لیل و نہار ہے ساقی
ٹھہر گئے ہیں کہاں قافلے محبت کے
ہر ایک راہ گذر سوگوار ہے ساقی
دبی دبی سی ہے کچھ اس طرح سے جانِ حزیں
تری...
کوئی عاشق کسی محبوبہ سے!
گلشنِ یاد میں گر آج دمِ بادِ صبا
پھر سے چاہے کہ گل افشاں ہو، تو ہو جانے دو
عمرِ رفتہ کے کسی طاق پہ بسرا ہوا درد
پھر سے چاہے کہ فروزاں ہو، تو ہو جانے دو
جیسے بیگانے سے اب ملتے ہو، ویسے ہی سہی
آؤ دو چار گھڑی میرے مقابل بیٹھو
گر چہ مل بیٹھیں گے ہم تم، تو ملاقات کے بعد...
ہم نے پوچھا آپ کا آنا ہوا یاں کس روش
ہنس کے فرمایا لے آئی آپ کے دل کی کشش
دل جونہی تڑپا وہیں دلدار آ پہونچا شتاب
اپنے دل کی اس قدر تاثیر رکھتی ہے طپش
سیر کو آیا تھا جس گلشن میں کل وہ نازنیں
تھی عجب نازاں بخود اس باٹ* کی اِک اِک روش
ڈالتی ہے زلفِ پیچاں گردنِ دل میں کمند
اور رگِ جاں سے کرے ہے...
قصیدہ (بشکریہ شاہد فاروق صاحب)
مدیح خیر المرسلین
از محسن کاکوروی
(حصہ اول)
سمتِ کاشی سے چلا جانبِ متھرا بادل
برق کے کاندھے پہ لاتی ہے صبا گنگا جل
گھر میں اشنان کریں سرو قدانِ گوکل
جاکے جمنا پہ نہانا بھی ہے اک طولِ امل
خبر اڑتی ہوی آئی ہے مہابن میں ابھی
کہ چلے آتے ہیں تیرتھ کو ہوا پر بادل...
اِس عالمِ ویراں میں کیا انجمن آرائی
دو روز کی محفل ہے اِک عمر کی تنہائی
پھیلی ہیں فضاؤں میں اس طرح تری یادیں
جس سمت نظر اٹھّی آواز تری آئی
اِک ناز بھرے دل میں یہ عشق کا ہنگامہ
اِک گوشۂ خلوت میں یہ دشت کی پہنائی
اوروں کی محبت کے دہرائے ہیں افسانے
بات اپنی محبت کی ہونٹوں پہ نہیں آئی
افسونِ...
مقتل میں نہ مسجد نہ خرابات میں کوئی
ہم کس کی امانت میں غمِ کارِ جہاں دیں
شاید کوئی ان میں سے کفن پھاڑ کے نکلے
اب جائیں شہیدوں کے مزاروں پہ اذاں دیں
بیروت 79
(مرے دل مرے مسافر)
قائم تھی یوں تو درد کی محفل جگہ جگہ
ہم ہی سنا سکے نہ غمِ دل جگہ جگہ
طوفانِ موج خیز کے خُوگر، سنبھل سنبھل
حائل ہیں تیری راہ میں ساحل جگہ جگہ
دل ہر مقامِ شوق سے آگے نکل گیا
دامن کو کھینچتی رہی منزل جگہ جگہ
ہر نقشِ پا تھا میرے لیے تیرا آستان
آئی نظر مجھے تری محفل جگہ جگہ
شانِ کرم کو عذرِ...
انتخابِ کلام الیگزنڈر ہیڈرلی آزاد
زہے وحدت وہی دیر و حرم میں جلوہ آرا ہے
ازل سے محو ہوں جس کے جمالِ حیرت افزا کا
دوئی کو ترک کر آزاد بس معقولِ وحدت رہ
اسی پر منحصر ہے فیصلہ دنیا و عقبےٰ کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لگے گا لطمۂ موجِ فنا دریائے ہستی میں
حباب اکدم کی خاطر تو اگر نکلا تو کیا نکلا
کرے...
غزل
نہ کسی پہ زخم عیاں کوئی، نہ کسی کو فکر رفو کی ہے
نہ کرم ہے ہم پہ حبیب کا، نہ نگا ہ ہم پہ عدو کی ہے
صفِ زاہداں ہے تو بے یقیں، صفِ میکشاں ہے تو بے طلب
نہ وہ صبح درود و وضو کی ہے، نہ وہ شام جام و سبو کی ہے
نہ یہ غم نیا، نہ ستم نیا، کہ تری جفا کا گلہ کریں
یہ نظرتھی پہلے بھی مضطرب، یہ کسک...
بہکی بہکی سی چتونیں آنکھ میں انتظار سا
آج یہ کس کی یاد میں حُسن ہے سوگوار سا
سہمے ہوئے سے سانس میں آہ سی اِک دبی ہوئی
لب پہ خفی سی لرزشیں بات میں اضطرار سا
لچکی ہوئی نزاکتیں اور بھی غم سے مضمحل
سمٹی ہوئی نگاہ میں اور بھی اختصار سا
شانِ غرور میں نہاں، رنگِ نیازِ التجا
طرزِ ادا میں بے دلی،...
ایک شہرِ آشوب کا آغاز
اب بزمِ سخن صحبتِ لب سوختگاں ہے
اب حلقۂ مے طائفۂ بے طلباں ہے
گھر رہیے تو ویرانیِ دل کھانے کو آوے
رہ چلیے تو ہر گام پہ غوغائے سگاں ہے
پیوندِ رہِ کوچۂ زر چشمِ غزالاں
پابوسِ ہوس افسرِ شمشاد قداں ہے
یاں اہلِ جنوں یک بہ دگر دست و گریباں
واں جیشِ ہوس تیغ بکف درپئے جاں ہے...
جان دے کر وفا میں نام کیا
زندگی بھر میں ایک کام کیا
بے نقاب آ گیا سرِ محفل
یار نے آج قتلِ عام کیا
آسماں بھی اسے ستا نہ سکا
تو نے جس دل کو شاد کام کیا
عشق بازی تھا کام رندوں کا
تو نے اس خاص شے کو عام کیا
اب کے یونہی گزر گئی برسات
ہم نے خالی نہ ایک جام کیا
(صوفی تبسّم)
محبت سے جب آشنا ہو گئے ہم
نگہ کی کسی نے فنا ہو گئے ہم
ہے مرنا یہی موت کہتے ہیں اس کو
کہ دنیا میں تجھ سے جدا ہو گئے ہم
یہی انتہا ہے افرازیوں کی
کہ مر کر تری خاکِ پا ہو گئے ہم
ازل سے ملا ہم کو وہ سازِ ہستی
کہ اِک آہ میں بے صدا ہو گئے ہم
ملی روح کو اک نئی زندگانی
ترے عشق میں کیا سے کیا ہو...
ناصر کاظمی کی غزل کے مصارع ثانی پر گرہ سازی کی جسارت کے ساتھ کہی ہوئی ایک غزل
دم بشیراں کا بھر نہ جائے کہیں
"تو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں"
آج آنا ہے اس نے میکے سے
"آج کا دن گزر نہ جائے کہیں"
اس کو بانٹا نہ کر رقیبوں میں
"حسن تیرا بکھر نہ جائے کہیں"
ساس آئے ہمارے باس کے گھر
"اور پھر عمر بھر...
کب وہ چونکے جو شرابِ عشق سے مستانہ ہے
شورِ محشر اس کو بہرِ خواب اِک افسانہ ہے
پھر سرِ شوریدہ پُر جوشِ جنوں دیوانہ ہے
پھر دلِ تفسیدہ پر برقِ بلا پروانہ ہے
خوب ہی چلتی ہوئی وہ نرگسِ مستانہ ہے
آشنا سے آشنا، بیگانے سے بیگانہ ہے
آتے جاتے ہیں نئے ہر روز مرغِ نامہ بر
بندہ پرور آپ کا گھر بھی کبوتر...