فیض نہ کسی پہ زخم عیاں کوئی، نہ کسی کو فکر رفو کی ہے ۔ فیض احمد فیض

فرخ منظور

لائبریرین
غزل​
نہ کسی پہ زخم عیاں کوئی، نہ کسی کو فکر رفو کی ہے
نہ کرم ہے ہم پہ حبیب کا، نہ نگا ہ ہم پہ عدو کی ہے

صفِ زاہداں ہے تو بے یقیں، صفِ میکشاں ہے تو بے طلب
نہ وہ صبح درود و وضو کی ہے، نہ وہ شام جام و سبو کی ہے

نہ یہ غم نیا، نہ ستم نیا، کہ تری جفا کا گلہ کریں
یہ نظرتھی پہلے بھی مضطرب، یہ کسک تودل میں کبھو کی ہے

کفِ باغباں پہ بہارِ گل کا ہے قرض پہلے سے بیشتر
کہ ہر ایک پھول کے پیرہن، میں نمود میرے لہو کی ہے

نہیں ‌خوفِ روزِ سیہ ہمیں، کہ ہے فیض ظرفِ نگاہ میں
ابھی گوشہ گیر وہ اک کرن، جو لگن اُس آئینہ رُو کی ہے


1967ء
 

سید زبیر

محفلین
شکریہ@فرخ منظور صاحب!فیض کا خوبصورت کلام شریک محفل کرنے کا
صفِ زاہداں ہے تو بے یقیں، صفِ میکشاں ہے تو بے طلب
نہ وہ صبح درود و وضو کی ہے، نہ وہ شام جام و سبو کی ہے
خوش رہیں
 

فرخ منظور

لائبریرین
شکریہ@فرخ منظور صاحب!فیض کا خوبصورت کلام شریک محفل کرنے کا
صفِ زاہداں ہے تو بے یقیں، صفِ میکشاں ہے تو بے طلب
نہ وہ صبح درود و وضو کی ہے، نہ وہ شام جام و سبو کی ہے
خوش رہیں

بہت شکریہ زبیر صاحب! سلامت رہیں۔
 
Top