سپنوں کے شرمیلے سا ئے، رات کا نیلا شور، من ساگر کی اور ۔ اسلم کولسری

فرخ منظور

لائبریرین
سپنوں کے شرمیلے سا ئے، رات کا نیلا شور، من ساگر کی اور
دور کھڑا مہکائے، مسکا ئے، البیلا چت چور، من ساگر کی اور
رنگ برنگ امنگ پتنگ کی بادل سنگ اڑان، سورج کی مسکان
کرنوں کی رم جھم سے کھیلے، مست نظر کی ڈ ور، من ساگر کی اور
خوں ریزوں پر کندہ کر کے، تیرا اجلا نام، جھومیں خواب تمام
اسی لئے شب بھر رہتی ہے بھیگی بھیگی بھور، من ساگر کی اور
کس لمحے کی اوٹ سے پھوٹی، رت انگاروں کی، فصل شراروں کی
ابھی ابھی تو رقص میں تھے، ہر سمت سنہرے مور، من ساگر کی اور
سارا دن جلتا رہتا ہے خوں شریانوں میں، حسرت خانوں میں
رات ڈھلے پر میٹھا میٹھا درد لگائے زور، من ساگر کی اور
جب تک اشکوں سے پورا ماحول نہیں دھلتا، ذرا نہیں کھلتا
پچھلی رات کا چندا ہے یا سمے کی زخمی پور، من ساگر کی اور
لہروں لہروں ڈوبے ابھرے، ایک صدا گم سم، جان کہاں ہو تم ؟
دھیرے دھیرے بن جاتی ہے، جلتی بجھتی گور، من ساگر کی اور
ان آنکھوں کا حال نہ پوچھو، یارو، اسلم سے، ہے جن کے دم سے
ہری ہری شمعوں کی جھلمل، ساتھ گھٹا گھنگھور، من ساگر کی اور
(اسلم کولسری)
 
Top