تبسم محبت سے جب آشنا ہو گئے ہم ۔ صوفی تبسّم

فرخ منظور

لائبریرین
محبت سے جب آشنا ہو گئے ہم
نگہ کی کسی نے فنا ہو گئے ہم

ہے مرنا یہی موت کہتے ہیں اس کو
کہ دنیا میں تجھ سے جدا ہو گئے ہم

یہی انتہا ہے افرازیوں کی
کہ مر کر تری خاکِ پا ہو گئے ہم

ازل سے ملا ہم کو وہ سازِ ہستی
کہ اِک آہ میں بے صدا ہو گئے ہم

ملی روح کو اک نئی زندگانی
ترے عشق میں کیا سے کیا ہو گئے ہم

یہی دل تھا دنیا میں دولت ہماری
تمہیں دے دیا، بے نوا ہو گئے ہم

تبسّم ہے افسردگی کا یہ عالم
کہ سمجھے کوئی پارسا ہو گئے ہم

(صوفی تبسّم)
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
ازل سے ملا ہم کو وہ سازِ ہستی
کہ اِک آہ میں بے صدا ہو گئے ہم
واہ!
 
Top