نتائج تلاش

  1. فرحان محمد خان

    گلزار "فلاح آدمیت میں صعوبت سہہ کے مر جانا" گلزار دہلوی

    فلاحِ آدمیت میں صعوبت سہہ کے مر جانا یہی ہے کام کر جانا یہی ہے نام کر جانا جہاں انسانیت وحشت کے ہاتھوں ذبح ہوتی ہو جہاں تذلیل ہے جینا وہاں بہتر ہے مر جانا یوں ہی دیر و حرم کی ٹھوکریں کھاتے پھرے برسوں تری ٹھوکر سے لکھا تھا مقدر کا سنور جانا سکونِ روح ملتا ہے زمانہ کو ترے در سے بہشت و خلد کے...
  2. فرحان محمد خان

    "کسی کا لوٹ کے آنا سہارا تھوڑی ہے" شاد مردانوی

    کسی کا لوٹ کے آنا سہارا تھوڑی ہے یہ دردِ سر ہے ہمارا تمہارا تھوڑی ہے. جو ہوسکے تو سمندر مثال ہوجاؤ دو چار جام پہ اپنا گزارا تھوڑی ہے میں اپنی آنکھ کہیں گھر میں چھوڑ آیا ہوں یہ فائدہ ہے سراسر خسارہ تھوڑی ہے. یہ میری انگلیاں ریشم سے کھیلنا چاہیں برا نہ مان یہ لمحہ دوبارہ تھوڑی ہے. میں سوچتا...
  3. فرحان محمد خان

    شکیب جلالی جب چُھٹ گئے تھے ہاتھ سے پتوار، یاد ہے

    جب چُھٹ گئے تھے ہاتھ سے پتوار، یاد ہے ہر سُو کھڑی تھی پانی کی دیوار ، یاد ہے پھر پھول توڑنے کو بڑھاتے ہو اپنا ہاتھ وہ ڈالیوں میں سانپ کی پُھنکار، یاد ہے وہ بے وفا کہ جس کو بھلانے کے واسطے خود سے رہا ہوں برسرِپیکار، یاد ہے اب کون ہے جو وقت کو زنجیر کر سکے سایوں سے ڈھلتی دھوپ کی تکرار یاد ہے...
  4. فرحان محمد خان

    فارسی شاعری ّ"بہ خوبی ھمچومہ تابندہ باشی" امیر خسرو

    بہ خوبی ھمچومہ تابندہ باشی بہ ملک دلبری پاینده باشی تیرے خوبصورت چہرہ چاند کی طرح چمکتا ہے ملک حسن پہ تیری بادشاہی سلامت رہے من درویش را کشتی بہ غمزہ کرم کردى الٰہی زندہ باشی تیری قاتلانہ نکاہ نے مجھ غریب کو مار ڈالا کرم کیا تو نے خدا تجھے بسر زندگی دے جہاں سوزى اگر در غمزہ آىى شکر ریزی اگر...
  5. فرحان محمد خان

    فارسی شاعری "به هر سو جلوه دلدار دیدم"

    به هر سو جلوه دلدار دیدم به هر چیزی جمال یار دیدم مجھے ہر طرف دلدار کا جلوہ نظر آتا ہے اور ہر چیز میں یار کا جمال نظر آتا ہے ندیدم هیچ شی را خالی از وی پر از وی کوچه و بازار دیدم مجھے کوئی منظر اس سے خالی نظر نہیں آتا مجھے ہر کوچہ و بازار میں وہی نظر آتا ہے چو خود را بنگرم دیدم همون است جمال...
  6. فرحان محمد خان

    "ترا وجود نظر کی تلاش میں ہے ابھی" جاوید احمد غامدی

    ترا وجود نظر کی تلاش میں ہے ابھی یہ خاک اپنے شرر کی تلاش میں ہے ابھی پہنچ ہی جائے گا منزل پہ کارواں اپنا اگرچہ رختِ سفر کی تلاش میں ہے ابھی افق سے ڈھونڈ کے لائی تھی آرزو جس کو وہ آفتاب سحر کی تلاش میں ہے ابھی تری نوا میں کمالِ ہنر تو ہے ، پھر بھی ذرا سے خونِ جگر کی تلاش میں ہے ابھی سمجھ ہی...
  7. فرحان محمد خان

    برائے اصلاح "فاعلاتن فاعلاتن فاعلن"

    ہم جو کہتے تھےوہ کرنے والے ہیں یعنی اب ہم لوگ مرنے والے ہیں آپ ہی ان کے قصیدے کہتے نا ہم بھلا کب ان سے ڈرنے والے ہیں یہ جو صحرا کی طرح ہیں پیاسے جی یہ کہاں بارش سے بھرنے والے ہیں آپ کو ایسی خبر کس نے دی کے تیرے عاشق بھی سدھرنے والے ہیں زندگی اوقات میں رہ تو بھی کے ہم تو تجھ سے بھی...
  8. فرحان محمد خان

    احمد ندیم قاسمی کھڑا تھا کب سے زمیں پیٹھ پر اٹھائے ہوئے

    کھڑا تھا کب سے زمیں پیٹھ پر اٹھائے ہوئے آب آدمی ہے قیامت سے لَو لگائے ہوئے یہ دشت سے امڈ آیا ہے کس کا سیلِ جنوں کہ حسنِ شہر کھڑا ہے نقاب اٹھائے ہوئے یہ بھید تیرے سوا اے خدا کسے معلوم عذاب ٹوٹ پڑے مجھ پہ کِس کے لائے ہوئے یہ سیلِ آب نہ تھا زلزلہ تھا پانی کا بکھر بکھر گئے قریے مرے بسائے...
  9. فرحان محمد خان

    "عشق میں غیرت جذبات نے رونے نہ دیا" سدرشن فاکر

    عشق میں غیرتِ جذبات نے رونے نہ دیا ورنہ کیا بات تھی کس بات نے رونے نہ دیا آپ کہتے تھے کہ رونے سے نہ بدلیں گے نصیب عمر بھر آپ کی اسِ بات نے رونے نہ دیا رونے والوں سے کہو اُن کا بھی رونا رو لیں جن کو مجبورئ حالات نے رونے نہ دیا تجھ سے مل کر ہمیں رونا تھا، بہت رونا تھا تنگیٔ وقتِ ملاقات نے...
  10. فرحان محمد خان

    "ہم اُن کو بھلا دیں، یہ ارادہ بھی نہیں تھا" جاوید احمد غامدی

    ہم اُن کو بھلا دیں، یہ ارادہ بھی نہیں تھا رنج اُن سے کبھی اتنا زیادہ بھی نہیں تھا شاطر کے اشاروں ہی پہ چلتا رہا، لیکن بے گانۂ احوال پیادہ بھی نہیں تھا وہ لوگ بھی کیا تھے کہ وہاں نغمہ سرا تھے جس شہر میں ایک آدمی زادہ بھی نہیں تھا ساقی سے گلہ کیا ہے کہ جس کے لیے آئے مے خانے میں وہ ساغر و بادہ...
  11. فرحان محمد خان

    غزل برائے اصلاح "فاعلاتن مفاعلن فَعِلن"

    عشق کا اب ملال تھوڑی ہے دل ہے جی یرغمال تھوڑی ہے باتوں کی بات ہے میاں کوئی چار لمحوں کا سال تھوڑی ہے موت تو ہم کو آنی ہے آخر عشقِ جی کو زوال تھوڑی ہے یہ ترے حسن کی کرامت ہے تیرا اس میں کمال تھوڑی ہے یہ مری ذات پر ہیں سب کے سب ان پہ کوئی سوال تھوڑی ہے آپ کا مجھ خیال تھوڑی ہے اور کوئی...
  12. فرحان محمد خان

    غزل برائے اصلاح "معفول مفاعلن فعولن"

    ہو عشق کی جو کہانی توبہ پھر آپ کی ہو زبانی توبہ الفاظ کی یہ روانی توبہ تیری شعلہ بیانی توبہ اک تو وہ گلابی آنچل اللہ اس پہ ہو پھر جوانی توبہ معصوم کمال کے ہیں صاحب اور آنکھوں میں ہو پانی توبہ حسنِ کافر بھی خوب تھا یار اس پہ وہ بے زبانی توبہ ہاں کمسنی میں کمال تھی وہ لیکن...
  13. فرحان محمد خان

    "اک کربِ مسلسل کی سزا دیں تو کسے دیں" انس معین

    اک کربِ مسلسل کی سزا دیں تو کسے دیں مقتل میں ہیں جینے کی دعا دیں تو کسے دیں پتھر ہیں سبھی لوگ کریں بات تو کس سے اس شہرِ خموشاں میں صدا دیں تو کسے دیں ہے کون جو خود کو ہی جلتا ہوا دیکھے اب ہاتھ ہیں کاغذ کے دیا دیں تو کسے دیں اب لوگ سوالی ہیں سبھی جسم برہنہ اور پاس ہے بس ایک ردا دیں تو کسے دیں...
  14. فرحان محمد خان

    تیرے دامن کی تھی یا مست ہوا کس کی تھی

    تیرے دامن کی تھی یا مست ہوا کس کی تھی ساتھ میرے چلی آئی وہ صدا کس کی تھی کون مجرم ہے کہ دوری ہے وہی پہلی سی پاس آ کر چلے جانے کی ادا کس کی تھی دل تو سلگا تھا مگر آنکھوں میں آنسو کیوں آئے مل گئی کس کو سزا اور خطا کس کی تھی شام آتے ہی اتر آئے مرے گاؤں میں رنگ جس کے یہ رنگ تھے ، جانے وہ قبا کس کی...
  15. فرحان محمد خان

    برائے اصلاح "فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن"

    علامہ اقبال سے معذات کے ساتھ:) قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے اپنے سالا کو مرے بھی کوئی سالا کر دے میں تمہیں گھر کی سیاست کا ہنر دیتا ہوں اپنی بیگم کو مرے بچوں کی حالہ کر دے سر الف عین
  16. فرحان محمد خان

    شکیب جلالی محبت میں زباں کی بے زبانی اب بھی ہوتی ہے

    محبت میں زباں کی بے زبانی اب بھی ہوتی ہے نگاہوں سے بیاں دل کی کہانی اب بھی ہوتی ہے سرِ محفل وہ کوئی بات بھی مجھ سے نہیں کرتے مگر تنہائہوں میں گُل فِشانی اب بھی ہوتی ہے چُھپاؤ لاکھ بے چینی کو خاموشی کے پردے میں تمہارے رُخ سے دل کی ترجمانی اب بھی ہوتی ہے ہمارا حال چُھپ کر پوچھتا تھا کوئی پہلے...
  17. فرحان محمد خان

    شکیب جلالی وہ دیکھ لیں تو نظاروں میں آگ لگ جائے

    وہ دیکھ لیں تو نظاروں میں آگ لگ جائے خدا گواہ بہاروں میں آگ لگ جائے جو لُطفِ شواشِ طوفاں تمہیں اٹھانا ہے دعا کرو کہ کناروں میں آگ لگ جائے نگاہِ لطف و کرم دل پہ اس طرح ڈالو بُجھے بُجھے سے شراروں میں آگ لگ جائے نظر اٹھا کے جُنوں دیکھ لے اگر اک بار تجلیات کی دھاروں میں آگ لگ جائے بہار ساز ہے...
  18. فرحان محمد خان

    شکیب جلالی کوئی دیکھے تو سہی یار طرح دار کا شہر

    کوئی دیکھے تو سہی یار طرح دار کا شہر میری آنکھوں میں سجا ہے لب و رخسار کا شہر دشت احساس میں شعلہ سا کوئی لپکا تھا اسی بنیاد پہ تعمیر ہوا پیار کا شہر اس کی ہر بات میں ہوتا ہے کسی بھید کا رنگ وہ طلسمات کا پیکر ہے کہ اسرار کا شہر میری نظروں میں چراغاں کا سماں رہتا ہے میں کہیں جاؤں مرے ساتھ ہے...
  19. فرحان محمد خان

    شکیب جلالی جو بھی ہے طالبِ یک ذرّہ، اُسے صحرا دے

    جو بھی ہے طالبِ یک ذرّہ، اُسے صحرا دے مجھ پہ مائل بہ کرم ہے تو مجھے دریا دے کب سے ہوں حسرتی، یک نگہِ گرم، کہ جو محفلِ شوق کے آداب مجھے سمجھا دے رختِ جاں کوئی لٹانے اِدھر آ بھی نہ سکے ایسے مشکل تو نہیں دشتِ وفا کے جادے بیتی یادوں کا تقاضا تو بجا ہے لیکن گردشِ شام و سھر کیسے کوئی ٹھہرا دے...
  20. فرحان محمد خان

    غزل برائے اصلاح "فاعلاتن فاعلاتن فاعلن"

    چھوڑ سب ہی دھیان تُو بھی عشق کر بات لے دل مان تُو بھی عشق کر جسم کی ضد ہے تو بس کارِ ہوس روح کی لے مان تُو بھی عشق کر میں بھی تجھ سے کرتا ہوں تو بھی تو کر رب کا ہے فرمان تُو بھی عشق کر چھوڑ دے واعظ جنت دوزخ کو اب سن لے اے نادان تُو بھی عشق کر اُس خدا کی ذات بھی مل جائے گی...
Top