شکیب جلالی محبت میں زباں کی بے زبانی اب بھی ہوتی ہے

محبت میں زباں کی بے زبانی اب بھی ہوتی ہے
نگاہوں سے بیاں دل کی کہانی اب بھی ہوتی ہے

سرِ محفل وہ کوئی بات بھی مجھ سے نہیں کرتے
مگر تنہائہوں میں گُل فِشانی اب بھی ہوتی ہے

چُھپاؤ لاکھ بے چینی کو خاموشی کے پردے میں
تمہارے رُخ سے دل کی ترجمانی اب بھی ہوتی ہے

ہمارا حال چُھپ کر پوچھتا تھا کوئی پہلے بھی
ہمارے حال پر یہ مہربانی اب بھی ہوتی ہے

تمہاری ہی کمی محسوس ہوتی ہے مجھے ورنہ
وہ موسم ، وہ فضا، وہ رُت سُہانی اب بھی ہوتی ہے

زمانہ دل کی باتوں کو کبھی کھل کر نہیں کہتا
بہ اندازِ شکایت قدردانی اب بھی ہوتی ہے

نکل آیا زمان و آشاں کی قید سے لیکن
بقا کی رَہ میں حائل زندگانی اب بھی ہوتی ہے​
شکیب جلالی​
مارچ 1952ء​
 
آخری تدوین:
Top