نتائج تلاش

  1. فرحان محمد خان

    عدم بہت سے لوگوں کو غم نے جلا کے مار دیا

    بہت سے لوگوں کو غم نے جلا کے مار دیا جو بچ رہے تھے انہیں مے پلا کے مار دیا یہ کیا ادا ہے کہ جب ان کی برہمی سے ہم نہ مر سکے تو ہمیں مسکرا کے مار دیا نہ جاتے آپ تو آغوش کیوں تہی ہوتی گئے تو آپ نے پہلو سے جا کے مار دیا مجھے گلہ تو نہیں آپ کے تغافل سے مگر حضور نے ہمت بڑھا کے مار دیا نہ آپ...
  2. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی حاضر شراب و جام ہیں تو جاگ تو سہی

    حاضر شراب و جام ہیں تو جاگ تو سہی الطاف خاص و عام ہیں تو جاگ تو سہی ہیں اختیار شوق میں تاروں کی منزلیں بہکے ہوئے مقام ہیں تو جاگ تو سہی کانٹے بھی ایک چیز ہیں تو دیکھ تو سہی گل بھی شرارہ فام ہیں تو جاگ تو سہی ان شب کی طلمتوں میں کہیں آس پاس ہی صبحوں کے اہتمام ہیں تو جاگ تو سہی افسردگی...
  3. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی غنچے فضائے نو میں گرفتار ہو گئے

    غنچے فضائے نو میں گرفتار ہو گئے کچھ پهول اپنے رنگ سے بیزار ہو گئے کتنے تصورات ہواؤں میں اڑ گئے کتنے خیال سایہِ دیوار ہو گئے شبلی کا پهول جذبہِ منصور کی صدا راہِ وفا میں تیغ کی جهنکار ہو گئے ڈهلتی رہیں شعور میں تاروں کی تابشیں اک جام پی کے صاحبِ اسرار ہو گئے ہم بیکسوں کا چاند کی کرنوں سے...
  4. فرحان محمد خان

    فیض آئے کچھ ابر، کچھ شراب آئے

    ایک حیرت کے ساتھ پیشِ حدمت ہے آئے کچھ ابر، کچھ شراب آئے اس کے بعد آئے جو عذاب آئے (ق) بامِ مینا سے ماہتاب اُترے دستِ ساقی میں، آفتاب آئے ہر رگِ خوں میں پھر چراغاں ہو سامنے پھر وہ بے نقاب آئے عمر کے ہر ورق پہ دل کو نظر تیری مہر و وفا کے باب آئے کر رہا تھا غم جہاں کا حساب آج تم یاد بے حساب آئے نہ...
  5. فرحان محمد خان

    فیض رنگ پیراہن کا، خُوشبو زُلف لہرانے کا نام

    رنگ پیراہن کا، خُوشبو زلف لہرانے کا نام موسمِ گُل ہے تمہارے بام پر آنے کا نام دوستو ، اُس چشم و لب کی کچھ کہو جس کے بغیر گلستاں کی بات رنگیں ہے، نہ میخانے کا نام پھر نظر میں پھول مہکے، دل میں پھر شمعیں جلیں پھر تصور نے لیا اُس بزم میں جانے کا نام (ق) دِلبری ٹھہرا زبانِ خلق کھلوانے کا نام اب...
  6. فرحان محمد خان

    فیض وہیں ہے دل کے قرائن تمام کہتے ہیں

    وہیں ہے دل کے قرائن تمام کہتے ہیں وہ اِک خلش کہ جسے تیرا نام کہتے ہیں تم آرہے ہو کہ بجتی ہیں میری زنجیریں نہ جانے کیا مرے دیوار و بام کہتے ہیں یہی کنارِ فلک کا سیہ تریں گوشہ یہی ہے مطلعِ ماہِ تمام کہتے ہیں پیو کہ مفت لگا دی ہے خونِ دل کی کشید گراں ہے اب کے مئے لالہ فام کہتے ہیں فقیہہِ شہر سے...
  7. فرحان محمد خان

    داغ یوں مصور یار کی تصویر کھینچ

    یوں مصور یار کی تصویر کھینچ کچھ ادا، کچھ ناز، کچھ تقریر کھینچ کیوں کھٹکتا ہے عبث اے خارِ عشق یا نکل یا دامنِ تاثیر کھینچ ہو چکا سفاک عذرِ نازکی تو کماں کی طرح دل سے تیر کھینچ دامنِ یوسف اگر کھینچا تو کیا اے زلیخا دامنِ تاثیر کھینچ داغؔ کو تو نیم بسمل چھوڑ دے دل سے اے سفاک آدھا تیر کھینچداغؔ...
  8. فرحان محمد خان

    داغ ہے طرفہ تماشا سرِ بازار محبت

    ہے طرفہ تماشا سرِ بازارِ محبت سر بیچتے پھرتے ہیں خریدارِ محبت اللہ کرے تو بھی ہو بیمارِ محبت صدقے میں چھٹیں گے تیرے گرفتارِ محبت ابرو سے چلے تیغ تو مژگاں سے چلے تیر تعزیز کے بھوکے ہیں خطا وارِ محبت اس واسطے دیتے ہیں وہ ہر روز نیا داغ اک درد کے خوگر نہ ہوا بیمارِ محبت ہے گورِِ الٰہی قفسِ...
  9. فرحان محمد خان

    شکیب جلالی زعمِ وفا بھی ہے ہمیں عشقِ بُتاں کے ساتھ

    زعمِ وفا بھی ہے ہمیں عشقِ بُتاں کے ساتھ اُبھریں گے کیا ڈوبے ہیں سنگِ گراں کے ساتھ تنہائیوں کے کیف سے نا آشنا نہیں وابستگی ضرور ہے بزمِ جہاں کے ساتھ اے چشم تر سفینہِ دل کی تھی کیا بساط ساحل نشیں بھی بہہ گئےسیلِ رواں کے ساتھ ان ساعتوں کی یاد سے مہکا ہوا ہے دل گزری تھیں جو کسی نگہِ گُل فشاں کے...
  10. فرحان محمد خان

    "کسے خبر ہے کہ عمر بس اس پہ غور کرنے میں کٹ رہی ہے" تہذیب حافی

    کسے خبر ہے کہ عمر بس اس پہ غور کرنے میں کٹ رہی ہے کہ یہ اداسی ہمارے جسموں سے کس خوشی میں لپٹ رہی ہے عجیب دکھ ہے ہم اس کے ہو کر بھی اس کو چھونے سے ڈر رہے ہیں عجیب دکھ ہے ہمارے حصے کی آگ اوروں میں بٹ رہی ہے میں اس کو ہر روز بس یہی ایک جھوٹ سننے کو فون کرتا سنو یہاں کوئی مسئلہ ہے تمہاری آواز...
  11. فرحان محمد خان

    اشعار کی اصلاح "فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن"

    کاش کے تم مجھے بھی پاس بلا کے روتے اور پھر تم مجھے سینے سے لگا کے روتے اک زمانہ سے ملاقات نہیں ہے اپنی اب جو ملتے تو وہ سینے سے لگا کے روتے ہم نے اس خوف میں چھوڑی نہیں تیری بستی ہم بھی غالب کی طرح پھر کہی جا کے روتے سر الف عین
  12. فرحان محمد خان

    غزل برائے اصلاح "فاعلاتن مفاعلن فِعْلن"

    اگر یہ میری ذات کی حد ہے پھر تو اس کائنات کی حد ہے صبح کا سورج اور کچھ بھی نہیں یہ فقط ہے تو رات کی حد ہے آپ کا حسن اک قیامت ہے اور کوئی صفات کی حد ہے میری ہی بات حرف آخر ہے یہ تو صاحب ثبات کی حد ہے آپ کا اک اشارہ میرے لیے میری ہر ایک بات کی حد ہے موت کچھ اور نہیں ہے ہرگز بھی یہ...
  13. فرحان محمد خان

    "مری آنکھوں کو آنکھوں کا کنارہ کون دے گا" افتخار قیصر

    مری آنکھوں کو آنکھوں کا کنارہ کون دے گا سمندر کو سمندر میں سہارا کون دے گا مرے چہرے کو چہرہ کب عنایت کر رہے ہو تمہیں میرے سوا چہرہ تمہارا کون دے گا مرے دریا نے اپنے ہی کنارے کاٹ ڈالے بپھرتے پانیوں کو اب سہارا کون دے گا بدن میں ایک صحرا جل رہا ہے بجھ رہا ہے مرے دریاؤں کو پہلا اشارہ کون...
  14. فرحان محمد خان

    فیض نذرِ غالبؔ "کسی گماں پہ توقع زیادہ رکھتے ہیں"

    نذرِ غالبؔ کسی گماں پہ توقع زیادہ رکھتے ہیں پھر آج کوئے بتاں کا ارادہ رکھتے ہیں بہار آئے گی جب آئے گی، یہ شرط نہیں کہ تشنہ کام رہیں گرچہ بادہ رکھتے ہیں تری نظر کا گلہ کیا؟ جو ہے گلہ دل کا تو ہم سے ہے، کہ تمنا زیادہ رکھتے ہیں نہیں شراب سے رنگیں تو غرقِ خوں ہیں کہ ہم خیالِ وضعِ قمیص و لبادہ...
  15. فرحان محمد خان

    فیض ہر حقیقت مجاز ہو جائے

    ہر حقیقت مجاز ہو جائے کافروں کی نماز ہو جائے دل رہینِ نیاز ہو جائے بے کسی کار ساز ہو جائے منتِ چارہ ساز کون کرے درد جب جاں نواز ہو جائے عشق دل میں رہے تو رُسوا ہو لب پہ آئے تو راز ہو جائے لطف کا انتظار کرتا ہوں جوڑ تاحدِ ناز ہو جائے عمر بے سود کٹ رہی ہے فیض کاش افشائے راز ہو جائے...
  16. فرحان محمد خان

    فیض حسرتِ دید میں گزراں ہیں زمانے کب سے

    حسرتِ دید میں گزراں ہیں زمانے کب سے دشتِ اُمید میں گرداں ہیں دوانے کب سے دیر سے آنکھ پہ اُترا نہیں اشکوں کا عذاب اپنے ذمّے ہے ترا قرض نہ جانے کب سے کس طرح پاک ہو بے آرزو لمحوں کا حساب درد آیا نہیں دربار سجانے کب سے سر کرو ساز کہ چھیڑیں کوئی دل سوز غزل "ڈھونڈتا ہے دلِ شوریدہ بہانے کب سے...
  17. فرحان محمد خان

    فیض جمے گی کیسے بساطِ یاراں کہ شیشہ و جام بُجھ گئے ہیں

    جمے گی کیسے بساطِ یاراں کہ شیشہ و جام بُجھ گئے ہیں سجے گی کیسے شبِ نگاراں کہ دل سرِ شام بُجھ گئے ہیں وہ تیرگی ہے رہِ بُتاں میں چراغِ رُخ ہے نہ شمعِ وعدہ کرن کوئی آرزو کی لاؤ کہ سب در و بام بُجھ گئے ہیں بہت سنبھالا وفا کا پیماں مگر وہ برسی ہے اب کے برکھا ہر ایک اقرار مٹ گیا ہے تمام پیغام بُجھ...
  18. فرحان محمد خان

    "لغزش پائے ہوش کا حرف جواز لے کے ہم" شمس الرحمن فاروقی

    لغزش پائے ہوش کا حرف جواز لے کے ہم خود کو سمجھنے آئے ہیں روح مجاز لے کے ہم کرب کے ایک لمحے میں لاکھ برس گزر گئے مالک حشر کیا کریں عمر دراز لے کے ہم شام کی دھندلی چھاؤں میں پھیلے ہیں سائے دار کے سجدہ کریں کہ آئے ہیں ذوق نماز لے کے ہم دور افق پہ جا کہیں دونوں لکیریں مل گئیں آئے تو تھے...
  19. فرحان محمد خان

    برائے اصلاح "فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن"

    تین اشعار برائے اصلاح صبح ہوتے ہی ستارے ڈوب جاتے ہیں میاں جیسے لہروں میں کنارے ڈوب جاتے ہیں میاں کون کیوں آخر تمہارا ساتھ دے گا جی یہاں طوفاں میں اکثر سہارے ڈوب جاتے ہیں میاں حُب الوطنی بھی تو عجب شے ہے کیا کہتے بھلا ہم نے دیکھا ہے پیارے ڈوب جاتے ہیں میاں سر الف عین
  20. فرحان محمد خان

    گلزار "خدا نے حُسن دیا ہے تمہیں شباب کے ساتھ" گلزار دہلوی

    خدا نے حُسن دیا ہے تمہیں شباب کے ساتھ سَبُو و جام کھنکتے ہوئے رُباب کے ساتھ نکاہ و زلف اگر کفر ہے تو ایماں رو شراب ان کو عطا کی گئی کتاب کے ساتھ زباں پہ حرفِ شکایت بھی لے نہیں سکتے عِنایَتِیں بھی وہ کرتے ہیں کچھ عتاب کے ساتھ یہ ان کی زلفِ پریشاں کا فیض ہے یارو تمام عمر گزاری ہے پیچ و تاب کے...
Top