فیض آئے کچھ ابر، کچھ شراب آئے

ایک حیرت کے ساتھ پیشِ حدمت ہے
آئے کچھ ابر، کچھ شراب آئے
اس کے بعد آئے جو عذاب آئے
(ق)
بامِ مینا سے ماہتاب اُترے
دستِ ساقی میں، آفتاب آئے
ہر رگِ خوں میں پھر چراغاں ہو
سامنے پھر وہ بے نقاب آئے

عمر کے ہر ورق پہ دل کو نظر
تیری مہر و وفا کے باب آئے
کر رہا تھا غم جہاں کا حساب
آج تم یاد بے حساب آئے
نہ گئی تیرے غم کی سرداری
دل میں یوں روز انقلاب آئے

جل اُٹھے بزم غیر کے دروبام
جب بھی ہم خانماں خراب آئے
(ق)
اس طرح اپنی خامشی گونجی
گویا ہر سمت سے جواب آئے
فیض تھی راہ سربسر منزل
ہم جہاں پہنچے، کامیاب آئے​
فیض احمد فیض
 
Top