فیض رنگ پیراہن کا، خُوشبو زُلف لہرانے کا نام


رنگ پیراہن کا، خُوشبو زلف لہرانے کا نام
موسمِ گُل ہے تمہارے بام پر آنے کا نام

دوستو ، اُس چشم و لب کی کچھ کہو جس کے بغیر
گلستاں کی بات رنگیں ہے، نہ میخانے کا نام

پھر نظر میں پھول مہکے، دل میں پھر شمعیں جلیں
پھر تصور نے لیا اُس بزم میں جانے کا نام

(ق)

دِلبری ٹھہرا زبانِ خلق کھلوانے کا نام
اب نہیں لیتے پری رُو زُلف بکھرانے کا نام
اب کسی لیلیٰ کو بھی اقرارِ محبوبی نہیں
اِن دنوں بدنام ہے ہر ایک دیوانے کا نام

محتسِب کی خیر، اونچا ہے اُسی کے فیض سے
رِند کا ، ساقی کا، مے کا، خُم کا ،پیمانے کا نام

ہم سے کہتے ہیں چمن والے، غریبانِ چمن
تم کوئی اچھا سا رکھ لو اپنے ویرانے کا نام

فیض اُن کو ہے تقاضائے وفا ہم سے جنہیں
آشنا کے نام سے پیارا ہے بیگانے کا نام

فیض احمد فیض
 
مدیر کی آخری تدوین:
Top