نتائج تلاش

  1. فرحان محمد خان

    جون ایلیا تری قیمت گھٹائی جا رہی ہے

    تری قیمت گھٹائی جا رہی ہے مجھے فرقت سکھائی جا رہی ہے یہ ہے تعمیرِ دنیا کا زمانہ حویلی دل کی ڈھائی جا رہی ہے وہ شے جو صرف ہندوستان کی تھی وہ پاکستان لائی جا رہی ہے کہاں کا دین۔۔کیسا دین۔۔کیا دین یہ کیا گڑ بڑ مچائی جا رہی ہے شعورِ آدمی کی سر زمیں تک خدا کی اب دُہائی جا رہی ہے بہت سی صورتیں...
  2. فرحان محمد خان

    غزل برائے اصلاح "فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلن"

    بات یہ سچ ہے حکایت تو نہیں ہمیں اس سے ہی شکائت تو نہیں مجھے دنیا کے بہت غم ہیں جناب دکھ فقط اس کی عنایت تو نہیں ہمیں کچھ رَنْج بھی ہوتا ہو گا اس کا انکار بھی راحت تو نہیں دل ہی توڑے دیا اُس نے کسی کا یہ محبت ہی شرارت تو نہیں تحت خاموش ہیں صاحب یہاں تو ہم یہ کہتے ہیں شرافت تو نہیں آپ کی بات...
  3. فرحان محمد خان

    ایک شعر کی اصلاح درکار ہے

    خدا نے آنکھیں بھی دی ہیں ان کو وہ کان سے پھر بھی دیکھتے ہیں مَفاعلاتن مَفاعلاتن سر الف عین
  4. فرحان محمد خان

    غزل برائے اصلاح "فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلن"

    بات یہ سچ ہے حکایت تو نہیں ہمیں اس سے ہی شکائت تو نہیں مجھ زمانہ کہ کچھ اور غم ہیں جناب دکھ فقط اس کی عنایت تو نہیں ہمیں کچھ رَنْج بھی ہوتا ہو گا اس کا انکار بھی راحت تو نہیں دل ہی توڑے دیا اُس نے کسی کا یہ محبت ہی شرارت تو نہیں تحت خاموش ہیں صاحب یہاں تو ہم یہ کہتے...
  5. فرحان محمد خان

    جو ہوا یار وہ ہونا تو نہیں چاہیے تھا

    جو ہوا یار وہ ہونا تو نہیں چاہیے تھا خوب کہتے ہو کہ رونا تو نہیں چاہیے تھا اے خدا ایک خدا لگتی کہے دیتے ہیں تو ہے جیسا تجھے ہونا تو نہیں چاہیے تھا کیوں دھڑکتی ہوئی مخلوق سسکتی ہی رہے بے نیازی کو کھلونا تو نہیں چاہیے تھا سلک _ ہستی سے اگر روٹھ گیا در _ جمال سنگ _ دشنام پرونا تو نہیں چاہیے تھا...
  6. فرحان محمد خان

    غزل برائے اصلاح "مفعول مفاعلن فعولن"

    بن کےجو عذاب چبھ رہے ہیں آنکھوں میں خواب چبھ رہے ہیں کانٹوں کا گلا ہی کیا ہے یارو اب تو یہ گلاب چبھ رہے ہیں لوگوں کے سوالوں کا نہیں دکھ اُن کےتو جواب چبھ رہے ہیں جب آئے ہیں ہم ان کی محفل فرمایا جناب چبھ رہے ہیں مسجد میں سے جو ہو رہے ہیں مجھ تو وہ خطاب چبھ رہے ہیں ہے مجھ تو...
  7. فرحان محمد خان

    غزل برائے اصلاح "مفاعیلن مفاعیلن فعولن"

    نہ جانے کون ہے کیوں ہے کیا ہے ہمیں بھی لوگ کہتے ہیں ،خدا ہے نہیں معلوم کیسی ہوتی ہے یہ یہاں کچھ لوگ کہتے ہیں وفا ہے نہیں سنتا وہ رب اب کوئی میری مگر لو گ پھر بھی کہتے ہیں دعا ہے مقدّر پر ہی جب سب کچھ ہے یارو تو پھر کیوں دل میں کوئی مدعا ہے کبھی آتی ہے اُس بھی یاد میری کچھ ایسی...
  8. فرحان محمد خان

    اصلاح درکار "فاعلاتن مفاعلن فِعْلن"

    موت کی قدر ہم سے پوچھیے نا ہم نے تو زندگی گزاری ہے یہ ہمیں موت کیوں نہیں آتی یہ کیا موت بھی تمہاری ہے
  9. فرحان محمد خان

    وٙجد کرتی اک دُعا کچے مکانوں سے اٹھی

    وٙجد کرتی اک دُعا کچے مکانوں سے اٹھی روشنی تسبیح کے رنگین دانوں سے اٹھی ................ کب نٙمُودِ جلوہءشہؐ بس، تٙریِسٹھ سال ہیں آیہء رحمت کی ضو سارے زمانوں سے اٹھی ................ سرخ آفت سے مُزّین، تٙختہء گُل کی سحر شٙب کو نارنجی قیامت شمع دانوں سے اٹھی ................ سٙبزہ و گُل سب...
  10. فرحان محمد خان

    محمد مجید مہر کی خوبصورت غزل

    عجب نہیں ہے یہ کوئی کہ تُو نے رقص کیا مرے کلام پہ میرے عدو نے رقص کیا کہا جو میں نے شبِ رفتہ وجد میں اللّہ تو صبح تک مرے کمرے میں " ہو " نے رقص کیا ملی جو چہرہِ انور کے لمس کی دولت تو کیف و مستی میں آبِ وضو نے رقص کیا کچھ ایسی شان سے پہنچے تھے آج مقتل میں ہوئے جو قتل ، ہمارے لہو نے رقص...
  11. فرحان محمد خان

    اصلاح درکار"فاعلاتن مفاعیلن مفاعیلن"

    اپنےسب یار میں بیکار ہیں ہم تو اب کہاں یاروں کے یار ہیں ہم تو یہ اسی دور کی باتیں ہیں جب وہ تھا اب کہاں اب فقط بس خار ہیں ہم تو اب وہ عارض نہیں ہو سکتے اپنے بھی اب کے شاہد بہت بیمار ہیں ہم تو اب نہیں ہم سے نفرت کوئی کر سکتا سب کو معلوم ہےبس پیار ہیں ہم تو سر الف عین
  12. فرحان محمد خان

    جون ایلیا اپنے سب یار کام کر رہے ہیں

    اپنے سب یار کام کر رہے ہیں اور ہم ہیں کہ نام کر رہے ہیں تیغ بازی کا شوق اپنی جگہ آپ تو قتلِ عام کر رہے ہیں داد و تحسین کا یہ شور ہے کیوں ہم تو خود سے کلام کر رہے ہیں ہم ہیں مصروفِ انتظام مگر جانے کیا انتظام کر رہے ہیں ہے وہ بے چارگی کا حال کہ ہم ہر کسی کو سلام کر رہے ہیں اِک قتالہ...
  13. فرحان محمد خان

    غالب مرزااسد اللہ غالب کا148 واں یوم وفات ہے

    ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے انداز بیاں اور مرزا غالب
  14. فرحان محمد خان

    فیض فیض احمد فیض کے قطعات

    فیض احمد فیض کے قطعات ----------------------------- رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے باد نسیم جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے ----------------------------- دل رہین غم جہاں ہے آج ہر نفس تشنۂ فغاں ہے آج سخت ویراں ہے محفل...
  15. فرحان محمد خان

    کیا دادا کی وراثت میں پوتوں کا حصہ ہے؟ اگر باپ فوت ہو چکا ہو؟

    کیا دادا کی وراثت میں پوتوں کا حصہ ؟ ہے اگر باپ فوت ہو چکا ہو؟
  16. فرحان محمد خان

    اصلاح درکار"" فاعلاتن فَعِلن فاعلاتن فَعِلن""

    پھول مانگے تو مقدر نے دلائے پتھر یار میرے ہی مرے واسطے لائے پتھر لوگ پھولوں کو مسل دیتے ہیں بے دردی سے ہم نے ہیں گود میں شفقت سے اٹھائے پتھر تیری بستی کو نہ جانیں تو کسے ہم جانیں ہم پہ سو بار ترے کوچے سے آئے پتھر جانے کس کھوہ میں ہیں آج مسلمان چھپے پھر سے اسلام پہ بوجہل کے آئے پتھر
  17. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی متاع کوثر و زمزم کے پیمانے تری آنکھیں

    متاع کوثر و زمزم کے پیمانے تری آنکھیں فرشتوں کو بنا دیتی ہیں دیوانے تری آنکھیں جہان رنگ و بو الجھا ہوا ہے ان کے ڈوروں میں لگی ہیں کاکل تقدیر سلجھانے تری آنکھیں اشاروں سے دلوں کو چھیڑ کر اقرار کرتی ہیں اٹھاتی ہیں بہار نو کے نذرانے تری آنکھیں وہ دیوانے زمام لالہ و گل تھام لیتے ہیں جنہیں منسوب...
  18. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی میرے تصورات ہیں تحریروں عشق کی

    میرے تصورات ہیں تحریریں عشق کی زندانیٔ خیال ہیں زنجیریں عشق کی تعبیر حسن ہے دل مجروح کا لہو چھینٹے پڑے تو بن گئیں تصویریں عشق کی داغ فراق زخم وفا اشک خوں فشاں روز ازل سے ہیں یہی جاگیریں عشق کی شام خزاں کو صبح بہاراں بنا دیا ترتیب زیست بن گئیں تعزیریں عشق کی ساغرؔ جہان شوق میں دیکھی ہے جاوداں...
  19. فرحان محمد خان

    ساحر یہ زلف اگر کھل کے بکھر جائے تو اچھا

    یہ زلف اگر کھل کے بکھر جائے تو اچھا اس رات کی تقدیر سنور جائے تو اچھا جس طرح سے تھوڑی سی ترے ساتھ کٹی ہے باقی بھی اسی طرح گزر جائے تو اچھا دنیا کی نگاہوں میں بھلا کیا ہے برا کیا یہ بوجھ اگر دل سے اتر جائے تو اچھا ویسے تو تمہیں نے مجھے برباد کیا ہے الزام کسی اور کے سر جائے تو اچھا ساحر لدھیانوی
  20. فرحان محمد خان

    راحت اندوری مرے خلوص کی گہرائی سے نہیں ملتے

    مرے خلوص کی گہرائی سے نہیں ملتے یہ جھوٹے لوگ ہیں سچائی سے نہیں ملتے وہ سب سے ملتے ہوئے ہم سے ملنے آتا ہے ہم اس طرح کسی ہرجائی سے نہیں ملتے پُرانے زخم ہیں کافی ، شمار کرنے کو سو، اب کِسی بھی شناسائی سے نہیں ملتے ہیں ساتھ ساتھ مگر فرق ہے مزاجوں کا مرے قدم مری پرچھائی سے نہیں ملتے محبتوں کا سبق...
Top