فرحان محمد خان
محفلین
اپنے سب یار کام کر رہے ہیں
اور ہم ہیں کہ نام کر رہے ہیں
تیغ بازی کا شوق اپنی جگہ
آپ تو قتلِ عام کر رہے ہیں
داد و تحسین کا یہ شور ہے کیوں
ہم تو خود سے کلام کر رہے ہیں
ہم ہیں مصروفِ انتظام مگر
جانے کیا انتظام کر رہے ہیں
ہے وہ بے چارگی کا حال کہ ہم
ہر کسی کو سلام کر رہے ہیں
اِک قتالہ چاہئے ہم کو
ہم یہ اعلانِ عام کر رہے ہیں
کیا بھلا ساغرِ سِفال کہ ہم
ناف پیالے کو جام کر رہے ہیں
ہم تو آئے تھے عرضِ مطلب کو
اور وہ اِحترام کر رہے ہیں
نہ اُٹھے آہ کا دُھواں بھی کہ وہ
کوئے دل میں خِرام کر رہے ہیں
اس کے ہونٹوں پہ رکھ کے ہونٹ اپنے
بات ہی ہم تمام کر رہے ہیں
ہم عجب ہیں کہ اس کے کوچے میں
بے سبب دُھوم دھام کر رہے ہیں
جون ایلیا