ایلیا

  1. طارق شاہ

    جون ایلیا : اِک ہُنر ہے جو کر گیا ہُوں مَیں :

    غزل جون ایلیا اِک ہُنر ہے جو کر گیا ہُوں مَیں سب کے دِل سے اُتر گیا ہُوں مَیں کیسے اپنی ہنسی کو ضبط کرُوں! سُن رہا ہُوں کہ گھر گیا ہُوں مَیں کیا بتاؤں کہ مر نہیں پاتا جیتے جی جب سے مر گیا ہُوں مَیں اب ہے بس اپنا سامنا در پیش ہر کسی سے گزر گیا ہُوں مَیں وہی ناز و ادا وہی غمزے سر بہ...
  2. فرحان محمد خان

    جون ایلیا اپنے سب یار کام کر رہے ہیں

    اپنے سب یار کام کر رہے ہیں اور ہم ہیں کہ نام کر رہے ہیں تیغ بازی کا شوق اپنی جگہ آپ تو قتلِ عام کر رہے ہیں داد و تحسین کا یہ شور ہے کیوں ہم تو خود سے کلام کر رہے ہیں ہم ہیں مصروفِ انتظام مگر جانے کیا انتظام کر رہے ہیں ہے وہ بے چارگی کا حال کہ ہم ہر کسی کو سلام کر رہے ہیں اِک قتالہ...
  3. مومن مخلص

    جون ایلیا کے ایک غزل کے ایک مصرعہ کا مطلب ’خراباتیان خرد باختہ‘

    جون ایلیا صاحب کی ایک غزل ہے ’بے دلی کیا یوں ہی دن گزر جائیں گے۔۔۔‘ اس کا ایک مصرعہ ہے جو کچھ اس طرح ہے یہ خراباتیان خرد باختہ کیا برائے مہربانی کوئی مجھے بتا سکتا ہے اس کا مطلب کیا؟؟
  4. فاتح

    جون ایلیا زندانیانِ شام و سحر خیریت سے ہیں ۔ جون ایلیا

    زندانیانِ شام و سحر خیریت سے ہیں ہر لمحہ جی رہے ہیں مگر خیریت سے ہیں شہرِ یقیں میں اب کوئی دم خم نہیں رہا دشتِ گماں کے خاک بسر خیریت سے ہیں آخر ہے کون جو کسی پل کہہ سکے یہ بات اللہ اور تمام بشر خیریت سے ہیں ہے اپنے اپنے طور پہ ہر چیز اس گھڑی مژگانِ خشک و دامنِ تر خیریت سے ہیں اب فیصلوں کا کم...
  5. محمد بلال اعظم

    جانِ چمن رہو گے تم از علی زریون

    جانِ چمن رہو گے تم از علی زریون شاعرى ! انسانی تاریخ کا سب سے خوبصورت ترین سچ ! ایک ایسا سچ جس کی لہریں ،تقویم - محدود سے کہیں آگے تک رواں ہیں ..یہ وہ سچ ہے جس نے قدیم اور حادث کے معاملات بھی سلجھائے ،دروں اور بیرون کے فلسفے ہزار ہا شکلوں ،لہجوں اور طریقوں سے نمٹائے..یہ شاعرى ہی تھی ،جس نے...
  6. محمد بلال اعظم

    جون ایلیا ناروا ہے سخن شکایت کا

    ناروا ہے سخن شکایت کا وہ نہیں تھا میری طبیعت کا دشت میں شہر ہو گئے آباد اب زمانہ نہیں ہے وحشت کا وقت ہے اور کوئی کام نہیں بس مزہ لے رہا ہوں فرصت کا بس اگر تذکرہ کروں تو کروں کس کی زلفوں کا کس کی قامت کا مر گئے خواب سب کی آنکھوں کے ہر طرف ہے گلہ حقیقت کا اب مجھے دھیان ہی نہیں آتا اپنے...
  7. محمد بلال اعظم

    جون ایلیا اُس کے پہلو سے لگ کے چلتے ہیں

    کل جون ایلیا کا ایک مشاعرہ سن رہا ہے، یہ غزل بہت پسند آئی اور تلاش کے باوجود بھی نہ ملی تو شریکِ محفل کر رہا ہوں۔ اُس کے پہلو سے لگ کے چلتے ہیں ہم کہیں ٹالنے سے ٹلتے ہیں میں اُسی طرح تو بہلتا ہوں اور سب جس طرح بہلتے ہیں وہ ہے جان اب ہر ایک محفل کی ہم بھی اب گھر سے کم نکلتے ہیں کیا تکلف...
  8. فاتح

    جون ایلیا فتنہ و فساد کی آگ ہمیشہ مذہبی فرقوں کے درمیان ہی کیوں بھڑکتی ہے؟ جون ایلیا

    یہ کون لوگ ہیں جو ایک دوسرے کو قتل کر ڈالتے ہیں اور یہ قتل کرنے والے ہمیشہ مذہب کے قبیلے سے ہی کیوں اٹھتے ہیں؟ ہم دیکھتے ہیں کہ عقل اور فلسفے کے لوگ کبھی اک دوسرے کو قتل نہیں کرتے۔۔۔ افلاطون اور دیمقراطیس کے گروہ کبھی اک دوسرے سے نہیں ٹکرائے، فارابی کے مکتبۂ خیال نے شیخ شہا ب کی خانقاہ کے مفکروں...
  9. محمد بلال اعظم

    جون ایلیا جی ہی جی میں وہ جل رہی ہوگی

    جی ہی جی میں وہ جل رہی ہوگی چاندنی میں ٹہل رہی ہوگی چاند نے تان لی ہے چادرِ ابر اب وہ کپڑے بدل رہی ہوگی سو گئی ہوگی وہ شفق اندام سبز قندیل جل رہی ہوگی سرخ اور سبز وادیوںکی طرف وہ مرے ساتھ چل رہی ہوگی چڑھتے چڑھتے کسی پہاڑی پر اب وہ کروٹ بدل رہی ہوگی پیڑ کی چھال سے رگڑ کھا کر وہ تنے سے...
  10. محمد بلال اعظم

    جون ایلیا جون ایلیا کے قطعات

    جون ایلیا کے قطعات جون ایلیا اردو شاعری کا ایک بہت بڑا نام اور ان کے قطعات اردو اپنی مثال آپ ہیں۔ ان کے قطعات سے میرا انتخاب آپ سب کی سماعتوں کی نذر: اپنی انگڑائیوں پہ جبر نہ کر مجھ پہ یہ قہر ٹوٹ جانے دے ہوش میری خوشی کا دشمن ہےتو مجھے ہوش میں نہ آنے دے ------------------------- نشہ ناز نے...
  11. محمد بلال اعظم

    جون ایلیا تم حقیقت نہیں ہو حسرت ہو

    تم حقیقت نہیں ہو حسرت ہو جو ملے خواب میں وہ دولت ہو میں ‌تمھارے ہی دم سے زندہ ہوں مر ہی جاؤں جو تم سے فرصت ہو تم ہو خوشبو کے خواب کی خوشبو اور اتنی ہی بے مرّوت ہو تم ہو پہلو میں ‌پر قرار نہیں یعنی ایسا ہے جیسے فرقت ہو تم ہو انگڑائی رنگ و نکہت کی کیسے انگڑائی سے شکایت ہو کس طرح چھوڑ...
  12. محمداحمد

    جون ایلیا غزل - نہ ہوا نصیب قرارِ جاں، ہوسِ قرار بھی اب نہیں - جون ایلیا

    غزل نہ ہوا نصیب قرارِ جاں، ہوسِ قرار بھی اب نہیں ترا انتظار بہت کیا، ترا انتظار بھی اب نہیں تجھے کیا خبر مہ و سال نے ہمیں کیسے زخم دیئے یہاں تری یادگار تھی اک خلش، تری یادگار بھی اب نہیں نہ گلے رہے نہ گماں رہے، نہ گزارشیں ہیں نہ گفتگو وہ نشاطِ وعدہء وصل کیا، ہمیں اعتبار بھی اب نہیں...
Top