ناروا ہے سخن شکایت کا وہ نہیں تھا میری طبیعت کا دشت میں شہر ہو گئے آباد اب زمانہ نہیں ہے وحشت کا وقت ہے اور کوئی کام نہیں بس مزہ لے رہا ہوں فرصت کا بس اگر تذکرہ کروں تو کروں کس کی زلفوں کا کس کی قامت کا مر گئے خواب سب کی آنکھوں کے ہر طرف ہے گلہ حقیقت کا اب مجھے دھیان ہی نہیں آتا اپنے ہونے کا ، اپنی حالت کا تجھ کو پا کر زیاں ہوا ہم کو تو نہیں تھا ہماری قیمت کا صبح سے شام تک میری دُنیا ایک منظر ہے اس کی رخصت کا کیا بتاؤں کہ زندگی کیا تھی خواب تھا جاگنے کی حالت کا کہتے ہیں انتہائے عشق جسے اک فقط کھیل ہے مروت کا آ گئی درمیان روح کی بات ذکر تھا جسم کی ضرورت کا زندگی کی غزل تمام ہوئی قافیہ رہ گیا محبت کا
واہ کیا زبردست کلام شریک محفل کیا ہے کس کس شعر کو کوٹ کروں ہر شعر نگینے کی طرح ہے اسی طرح شراکت کرتے رہیں شاد و آباد رہیں
مر گئے خواب سب کی آنکھوں کےہر طرف ہے گلہ حقیقت کا کیا خوبصورت غزل ہے۔ ایک ایک شعر پر جان نذر کرنے کو دل کرتا ہے۔
زندگی کی غزل تمام ہوئیقافیہ رہ گیا محبت کا واہ۔ کس خوبصورتی سے محبت کا قافیہ فٹ کیا ہے۔۔۔ بہت خوب۔۔۔