محمد بلال اعظم
لائبریرین
جانِ چمن رہو گے تم از علی زریون
شاعرى ! انسانی تاریخ کا سب سے خوبصورت ترین سچ ! ایک ایسا سچ جس کی لہریں ،تقویم - محدود سے کہیں آگے تک رواں ہیں ..یہ وہ سچ ہے جس نے قدیم اور حادث کے معاملات بھی سلجھائے ،دروں اور بیرون کے فلسفے ہزار ہا شکلوں ،لہجوں اور طریقوں سے نمٹائے..یہ شاعرى ہی تھی ،جس نے انسان کو انسان کے دروں کی خبر دی ،جس نے اپنی دریافت سے احساسات کا وہ در وا کیا ،کہ جس کا کھلنا ،جہان - معانی کی اس عظیم الشان اقلیم میں راہ دیتا ہے ،جہاں پھول گفتگو کرتے ہیں ،پانی خواب دیکھتا ہے ،مٹی کلام کرتی ہے اور درخت اپنے سائے میں بیٹھنے والے مسافروں کی میزبانی کرتے ہیں ..
شاعرى ! انسانی تاریخ کا سب سے خوبصورت ترین سچ ! ایک ایسا سچ جس کی لہریں ،تقویم - محدود سے کہیں آگے تک رواں ہیں ..یہ وہ سچ ہے جس نے قدیم اور حادث کے معاملات بھی سلجھائے ،دروں اور بیرون کے فلسفے ہزار ہا شکلوں ،لہجوں اور طریقوں سے نمٹائے..یہ شاعرى ہی تھی ،جس نے انسان کو انسان کے دروں کی خبر دی ،جس نے اپنی دریافت سے احساسات کا وہ در وا کیا ،کہ جس کا کھلنا ،جہان - معانی کی اس عظیم الشان اقلیم میں راہ دیتا ہے ،جہاں پھول گفتگو کرتے ہیں ،پانی خواب دیکھتا ہے ،مٹی کلام کرتی ہے اور درخت اپنے سائے میں بیٹھنے والے مسافروں کی میزبانی کرتے ہیں ..
شاعرى کے روز - اول سے لے کر لمحہ ء حاضر تک ،یہ پر اسرار داستان اپنے خاص الخاص رازداروں پر ہی کھلی ہے ،اس کی حالتیں رمز پرور ،اس کا مکالمہ کہیں شور اور کہیں میر انگیز ہے ،یہ وہ بانوے شہر ہے جس نے اپنی چلمن کا رخ بھی کبھی نا محرموں پر عیاں نہیں ہونے دیا ..جمال تو دور کی بات ہے ."لکھنے " اور "کہنے" والوں کے درمیان فرق ،فصل -عظیم یہی تو رہا ہے کہ جانے کتنے ہی آئے جنہوں نے اپنی اپنی بساط بھر "بہت زور غزل میں مارا " کے مصداق ایڑھی چوٹی کا زور لگا دیا لیکن ..!! نہیں ...کامیابی انہی کو ملی جو اس لیلیٰ - پر افسوں کے حضور مکمّل و اکمل حاضری ،کیفیت اور جذب سے آئے ...بانوے ء شہر - سخن ،عارفہ ء اسرار - کائنات یعنی شاعرى کے انہی رازداروں ،انہی محرموں ،انہی اعلی و ائلیاؤں میں سے ایک نہایت سرکش ،نہایت حال خیز اور نہایت رمز پرور محرم اور محبوب کا نام جون ایلیا ہے ..!!
جون ایلیا مدینہ الشعر کا باب - کرامت ہے ....!!! ایک ایسا باب -کرامت جس نے اردو شاعرى میں اس لہجے کو از سر - نو دریافت کیا جس لہجے کی رمق قریب قریب ڈوب چکی تھی ..وہ سرمست - ذات ایسا تھا کہ جس نے اپنے لہجے اور اپنے اسلوب سے ایک ایسے نصاب کی شرح تحریر کی جس کی مثال کہیں اور سوائے جون ایلیا کے کہیں نہیں ملتی ..یہ اس عظیم سرکش کے دروں کا سچ ہی تو ہے کہ آج بھی جون - عظیم ایلیا کا کلام ،اپنی سادگی اور رمز کی پر کاری کے سبب گُرووہان - کاریگراں کے تمام لکھ ہوئے پر بھاری ہے ..
جون ایک ایسا دریا ہے جس کی مستی نے اپنی تمام سرکشی اور بھرپور روانی کے با وجود حرمت - حرف و لفظ کی کسی بستی کسی قریے پر چڑھائی نہیں کی ،یہ دریا اپنی مستی سے اپنے سینہ - لخت لخت سے چیختا ہوا جو نکلا ہے تو اپنے اندر ہے سمایا ہے ،اس کی چیخ ایسی بہترین چیخ بنی کہ آج بھی محبّت کے تھکے ہوئے وجود ،ذات و لا ذات کی چڑھائیوں سے گر کر ہارے ہوئے نفوس ،جون کی شاعرى کو کلام - مقدّس کی طرح جانتے ہیں ....جون اپنے عھد کا جبل - احد تھا ،ایسا جبل - احد جس کے سائے میں حرف و لفظ کے تمام منافقین و کافرین بھی اگر آئے تو فیض یاب ہو کر گئے ..وہ سب میں رہ کر بھی سب جیسا نہیں تھا اور اس کی طرف کوئی وحی بھی نازل نہیں ہوتی تھی ..!! لیکن پھر بھی اس کے چاہنے والے اس کے ناز اٹھانا اپنا فخر جانتے تھے ،وہ ایسا محبوب تھا کہ جس پر ناز جچتا تھا ،غرور کھلتا تھا اور بے نیازی سجا کرتی تھی ،اس نے اپنے کلام میں کوئی جھوٹ نہیں بولا ،بلکل اسی طرح جس طرح اس نے اپنی زندگی میں بہت سے سچ بھگتے اور ہر سچ کا صلہ بھی ..
جون ایلیا اردو ادب کا وہ واحد ادیب ہے جس کے ہاں ادب اپنے کل کے ساتھ ورود کرتا نظر آتا ہے ،وہ واحد تخلیق کار ہے جس کا کہا ہوا شعر آج بھی کوئی اپنے لہجے میں نہیں پڑھ سکتا ..کلام کے ساتھ شخصیت کا یہ اٹل آہنگ ہی وہ سبب ہے جس نے جون کے کلام کو آفاقی انفرادیت عطا کی ...جون کا سب سے بڑا اور خاص کمال اردو
شاعرى میں "میں" کی حسیت ،خاصیت اور ہیتوں کا اجرا ہے ..."میں" کا جتنا بڑا نفوذ جون کے ہاں ہے ،کسی اور کے ہاں نہیں ..جون نے اپنی انفرادی "میں" کو اس انداز سے برتا اور دیکھا ہے کہ وہ انفرادی میں اپنے نفس - ذات سے نکل کر اجتماع کی آواز بن گئی ...جون کی "میں" نے بڑے معجزے برپا کئے ہیں ...کہیں یہ '"میں " محبت میں سخت جھنجھلائے ہوئے شخص کی "میں" بن کر سامنے آتی ہے ،اور کہیں یہ "میں" منافقت ،عوام پر جاری کردہ جبر ،اور ذات کی عجیب و غریب منطق سے الجہ کر با قائدہ خطاب کرتی نظر آتی ہے ..
اے خدا ! جو کہیں نہیں موجود ..!
کیا لکھا ہے ہماری قسمت میں ؟؟؟؟
جون کا کمال یہ ہے کہ جون کا شعر انسانی و شخصی نفسیات کے اس قدر قریب رہ کر مکالمہ کرتا ہے کہ ذرا برابر بھی بوجھل پن نہیں پیدا کرتا .. لطف اور حیرت کی ایک ایسی رو دوڑ جاتی ہے کہ جیسے آپ نے کوئی شعر نہیں سنا ،اپنے سامنے کوئی ورائے عقل بات سر انجام پاتے دیکھ لی ہو ..وہ اپنے قاری کے ساتھ بلکل اجنبی نہیں ..جون کو اگر ہم ان نہایت چند خوش نصیب تخلیق کاروں میں شامل کریں جن کا قاری ان سے والہانہ محبّت کرتا ہے تو جون بلا مبالغہ سر - فہرست نظر آے گا ..اس کے کلام میں موجود بے ساختگی جون کا وہ نہایت خالص اور ذاتی مقام ہے جہاں کوئی اس کا شریک تو دور کی بات ،پاس بھی نظر نہیں آتا ..جون کی زمینیں اور با الخصوص وہ تمام زمینیں جس کی ردیف "ہاں تو " .."تھا کیا " "کوئی ہے " اور ایسی تمام زمینیں جن میں ذات سے مکالمہ کیا گیا ہے ایسی خطرناک اور اٹل زمینیں ہیں کہ کوئی بھی "بے کیفیت و بے برکت " شاعر اس زمین میں غزل کہتے ہوئے جون کے اثر سے بچ ہی نہیں سکتا ...
جون - عظیم ایلیا کی شاعرى کا سب سے محبوب ومرغوب تلازمہ اور موضوع "ذات " ہے ...کچھ نا عاقبت اندیش لوگ جون کی شاعرى بارے بڑے فلسفیانہ انداز میں یہ مو شگافی کرتے نظر آتے ہیں کہ "جون ایلیا کی شاعرى دو تین پرتوں تک ہی محدود ہے " یہ بات اگر با الفرض - محال مان بھی لی جائے تو ان تین پرتوں میں سے پہلی پرت ہی "ذات" ہے ..اور جس تخلیق کار کی تخلیق سازی کا دورانیہ شروع ہی "ذات" سے ہو رہا ہو اس کی باقی جہات کا اندازہ لگانا ہر کس و نا کس کے بس کی بات نہیں ہے ..ادب کی تمام منقولہ و غیر منقولہ دستاویزات کا جائزہ لیا جائے تو ان تمام دستاویزات میں جو لفظ جلی حروف میں لکھا ہوا ملے گا وہ یہی "ذات" کا لفظ ہوگا ...جون کی شاعرى کا محیط "ذات" کی نہایت بے قرارنہ حیثیت سے ہوتا ہوا اجتماع در اجتماع سفر کرتا ہوا خود خدا کی زبان بن جاتا ہے ..یہاں یہ بات نہایت واضح رہے کہ جو خدا جون کے ہاں زیر - بحث آیا ہے ،وہ جون کا ذاتی خدا ہے ..اس خدا کا کوئی معاملہ کسی اور یا یوں کہ لیجئے کہ عوام الناس میں رائج و نافذ خدائی نظریے سے ہرگز نہیں ..یہی وجہ ہے کہ جون نے جہاں جہاں خدا سے مکالمہ کرتے ہوئے کوئی بات کی ہے وہاں وہاں اس کا لہجہ تیز ہوتے ہوئے بھی ایک خاص طرح کے محبوبی آہنگ سے خارج نہیں ہوا ..یہ اہلیت نہیں تھی ،یہ کوئی کمال - فن نہیں تھا ،یہ در حقیقت جون کے بہت اندر کی وہ معصومیت اور وہ سچ تھا جو اسے تحقیق ،سوچنے ،اور غور کرنے پر مجبور کرتا تھا ..زر - فکر ,بازاری دکانوں پر لٹانے فلسفی کسبیوں کا مجرا دیکھنے سے کہیں بہتر یہی راہ تھی جو جون کے اندر از خود بڑھتی چلی جا رہی تھی ..خدا کے حضور آدمی کی وکالت ،یزداں کے سامنے حضرت ا انسان کا وجود ثابت کرنا جون کی فکری مجبوری تھی ،کیوں کہ وہ بہت پہلے کہیں کہ چکا تھا کہ "میں اپنا آدمی ہرگز نہیں ،لوح و قلم کا آدمی ہوں "...یہ بات کوئی معمولی بات ہے ہی نہیں ...
یعنی یہی وہ جداگانہ روش تھی جس کے سبب جون کا اسلوب - شاعرى اور آہنگ - شخصیت اسے تمام ہم عصر اہل - سخن سے ممتاز و منفرد کرتا ہے ..وہ جیسا اپنے کلام میں ہے ایسا ہی خالص وہ اپنی شخصیت میں ہے ..اس کی شخصیت اتنی بڑی شخصیت ہے کہ دریا مثال ہے ..اس کی تمام سرشاری اور مستی اس کے کلام کا آہنگ بنی ،اور کائنات گواہ ہے کہ کلام تو بہت دور کی بات ہے ،اگر کوئی ایک ذرّہ بھی اپنے داخلی سچ کے ساتھ جڑا ہوا ہے تو اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ،جون تو پھر ایک جیتی جاگتی کلام کرتی شخصیت تھی ..
جون کی شاعرى ایک مثال ہے کہ لہجے کا بے ساختہ پن بھی وہ بڑی شاعرى تخلیق کر سکتا ہے جس کی طرف بہت سے لوگوں نے خود ساختہ سنجیدگی اور گھمبھیرتا اوڑھے ہوئے سفر کیا ہے ..وہ ہنس کر ان معاملات کی گرد اڑا گیا جن پر بات کرتے ہوئے بہت سوں کی سانس پھول جاتی ہے .نسل - انسانی جیسے جیسے اپنے ارتقا کی سیڑھیاں چڑھے گی ،جیسے جیسے فرد کا شعوری تففس بحال ہوتا رہے گا..فرد جیسے جیسے خدا اور ذات کے قریب ہوتا جائے گا .جون کا یہ شعر تا ابد لوح - زمان و مکان پر لو دیتا رہے گا ..!!
کرب - تنہائی ہے وہ شے کہ خدا !!
آدمی کو پکار اٹھتا ہے ..!!
وہ چمن ہی نہیں جان ا چمن بھی تھا ..جب تک یہ چمن قائم ہے جان - چمن تم ہی رہو گے جون ..!!
علی زریون..!!
(Muhtarma Nasim Sayyed Sahiba kay Zair e Ahtamam Jashn e Jaun e Azeem Aielia kay moqay par tehreer karda )