غزل برائے اصلاح "فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلن"

بات یہ سچ ہے حکایت تو نہیں
ہمیں اس سے ہی شکائت تو نہیں

مجھے دنیا کے بہت غم ہیں جناب
دکھ فقط اس کی عنایت تو نہیں

ہمیں کچھ رَنْج بھی ہوتا ہو گا
اس کا انکار بھی راحت تو نہیں

دل ہی توڑے دیا اُس نے کسی کا
یہ محبت ہی شرارت تو نہیں

تحت خاموش ہیں صاحب یہاں تو
ہم یہ کہتے ہیں شرافت تو نہیں

آپ کی بات بھی حق ہے لیکن
اُن کا ارشادہ محبت تو نہیں

رقص جب بھی ہوا ہے وجد میں کیا
رقص کی مجھے کوئی چاہت تو نہیں

شکوہ کس بات کا ان سے کریں ہم
ہم کو گستاخ محبت تو نہیں

سر الف عین
 

الف عین

لائبریرین
مطلع میں ایطا ہو گیا ہے۔ کوشش کریں کہ مطلع میں درست قافیہ ، محض ’ت‘ پر ختم ہونے والا استعمال کریں۔ یہ ’کایت‘ پر ختم ہو رہا ہے، جب کہ باقی صرف ’ت‘ پر۔
مجھے دنیا کے بہت غم ہیں جناب
دکھ فقط اس کی عنایت تو نہیں

ہمیں کچھ رَنْج بھی ہوتا ہو گا
اس کا انکار بھی راحت تو نہیں
۔۔خوب، دونوں درست بلکہ اچھے ہیں۔

دل ہی توڑے دیا اُس نے کسی کا
یہ محبت ہی شرارت تو نہیں
÷÷ پہلے مصرع کی گرامر سمجھ میں نہیں آئی۔ ’توڑے دیا‘ ؟ اگر محض توڑ دیا ہوتا تو سمجھ میں آ جاتا۔
دل ہی توڑا ہے ہمارا اس نے
یہ محبت ہے، شرارت۔۔۔
یا
یہ محبت کی شرارت۔۔۔۔
کہیں تو بات صاف ہو جاتی ہے؟

تحت خاموش ہیں صاحب یہاں تو
ہم یہ کہتے ہیں شرافت تو نہیں

آپ کی بات بھی حق ہے لیکن
اُن کا ارشادہ محبت تو نہیں
÷÷یہ دونوں سمجھ میں نہیں آئے، اس لیے کچھ نہیں کہہ سکتا۔

رقص جب بھی ہوا ہے وجد میں کیا
رقص کی مجھے کوئی چاہت تو نہیں
۔۔رقص بس وجد میں آیا تو کیا
یوں مجھے رقص کی عادت تو نہیں
کیسا رہے گا
شکوہ کس بات کا ان سے کریں ہم
ہم کو گستاخ محبت تو نہیں
÷÷دوسرا مصرع سمجھ نہیں سکا۔
 
مطلع میں ایطا ہو گیا ہے۔ کوشش کریں کہ مطلع میں درست قافیہ ، محض ’ت‘ پر ختم ہونے والا استعمال کریں۔ یہ ’کایت‘ پر ختم ہو رہا ہے، جب کہ باقی صرف ’ت‘ پر۔
مجھے دنیا کے بہت غم ہیں جناب
دکھ فقط اس کی عنایت تو نہیں

ہمیں کچھ رَنْج بھی ہوتا ہو گا
اس کا انکار بھی راحت تو نہیں
۔۔خوب، دونوں درست بلکہ اچھے ہیں۔

دل ہی توڑے دیا اُس نے کسی کا
یہ محبت ہی شرارت تو نہیں
÷÷ پہلے مصرع کی گرامر سمجھ میں نہیں آئی۔ ’توڑے دیا‘ ؟ اگر محض توڑ دیا ہوتا تو سمجھ میں آ جاتا۔
دل ہی توڑا ہے ہمارا اس نے
یہ محبت ہے، شرارت۔۔۔
یا
یہ محبت کی شرارت۔۔۔۔
کہیں تو بات صاف ہو جاتی ہے؟

تحت خاموش ہیں صاحب یہاں تو
ہم یہ کہتے ہیں شرافت تو نہیں

آپ کی بات بھی حق ہے لیکن
اُن کا ارشادہ محبت تو نہیں
÷÷یہ دونوں سمجھ میں نہیں آئے، اس لیے کچھ نہیں کہہ سکتا۔

رقص جب بھی ہوا ہے وجد میں کیا
رقص کی مجھے کوئی چاہت تو نہیں
۔۔رقص بس وجد میں آیا تو کیا
یوں مجھے رقص کی عادت تو نہیں
کیسا رہے گا
شکوہ کس بات کا ان سے کریں ہم
ہم کو گستاخ محبت تو نہیں
÷÷دوسرا مصرع سمجھ نہیں سکا۔

شکریہ سر بہتر کرنے کی کوشش کرتا ہوں
 
بات یہ سچ ہےروایت تو نہیں
غم محبت میں وہ شدت تو نہیں

مجھے دنیا کے بہت غم ہیں جناب
دکھ فقط اس کی عنایت تو نہیں

ہمیں کچھ رَنْج بھی ہوتا ہو گا
اس کا انکار بھی راحت تو نہیں

دل ہی توڑا ہے ہمارا اس نے
یہ محبت ہے، شرارت تو نہیں

رقص بس وجد میں آیا تو کیا
یوں مجھے رقص کی عادت تو نہیں

شکوہ کس بات کا ان سے کریں ہم
ان سے گستاخ محبت تو نہیں
سر الف عین
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
مطلع میں اب بھی مزا نہیں آیا۔ غم محبت بے معنی ہے۔ غم۔ الفت کہہ سکتے ہیں۔
آخری شعر کا اب بھی کچھ نہیں کیا گیا ہے۔ گستاخ سے کیا مراد ہے یہاں؟
 
Top