غزل برائے اصلاح "مفاعیلن مفاعیلن فعولن"

نہ جانے کون ہے کیوں ہے کیا ہے
ہمیں بھی لوگ کہتے ہیں ،خدا ہے

نہیں معلوم کیسی ہوتی ہے یہ
یہاں کچھ لوگ کہتے ہیں وفا ہے

نہیں سنتا وہ رب اب کوئی میری
مگر لو گ پھر بھی کہتے ہیں دعا ہے

مقدّر پر ہی جب سب کچھ ہے یارو
تو پھر کیوں دل میں کوئی مدعا ہے

کبھی آتی ہے اُس بھی یاد میری
کچھ ایسی میرے دل کی سن صدا ہے
 
اسے میں نے بہت ڈھونڈھا نہ پایا
وہ پھر کہتے ہیں تم ہم سے گلا ہے

وہ کتنے تاجوں کو جو لے اڑی ہے
یہ تو گستاخ ظالم سی صبا ہے
 

الف عین

لائبریرین
اب کم از کم مستعمل بحر کی کوشش ہے۔ مفاعیلن مفاعیلن فعولن

نہ جانے کون ہے کیوں ہے کیا ہے
ہمیں بھی لوگ کہتے ہیں ،خدا ہے
÷÷مفہوم سے قطع نظر، پہلے مصرع میں ’کیا‘ سوالیہ ہے تو اسے محض ’کا‘ تقطیع کرنا چاہیے۔ فعل والا کِیا ہے تو ’فعو‘ تقطیع ہو گا۔ جیسا یہاں ہو رہا ہے۔

نہیں معلوم کیسی ہوتی ہے یہ
یہاں کچھ لوگ کہتے ہیں وفا ہے
÷÷یہ اکثر لکھتا ہوں کہ مصرع بثر کے قریب تر ہونے سے روانی بہتر ہوتی ہے۔ اور حروف کا اسقاط بھی کم سے کم ہو۔
اب تمہارے مصرع کے ساتھ یہ مصرع پڑھو
؎نہیں معلوم یہ ہوتی ہے کیسی
کون سا بہتر محسوس ہو رہا ہے؟

نہیں سنتا وہ رب اب کوئی میری
مگر لو گ پھر بھی کہتے ہیں دعا ہے
÷÷لوگ کا واؤ کا اسقاط جائز نہیں۔ دوسرا مصرع تو یوں ممکن ہے
مگر سب پھر بھی کہتے ہیں، دعا ہے
پہلا مصرع بھی روانی کا طلبگار ہے۔

مقدّر پر ہی جب سب کچھ ہے یارو
تو پھر کیوں دل میں کوئی مدعا ہے
÷÷درست

کبھی آتی ہے اُس بھی یاد میری
کچھ ایسی میرے دل کی سن صدا ہے
÷÷ یہ سوال تو تم نے الگ سے پوچھا ہے، جواب یہاں دیتا ہوں کہ اس کو ’اسے‘ کے معنی میں استعمال نہیں کیا جا سکتا۔یہ مصرع یوں ہو سکتا ہے
کبھی آتی ہے میری یاد اسے بھی
لیکن دوسرا مصرع بے معنی ہے۔

نئے اشعار
اسے میں نے بہت ڈھونڈھا نہ پایا
وہ پھر کہتے ہیں تم ہم سے گلا ہے
۔۔’تم ہم سے گلا ہے‘ بے معنی ہے۔

وہ کتنے تاجوں کو جو لے اڑی ہے
یہ تو گستاخ ظالم سی صبا ہے
۔۔یہ، وہ اور جو تینوں ضمیریں ایک ساتھ استعمال ہوئی ہیں۔ روانی بھی متاثر ہے۔
یوں کہو تو
اڑا کر لے گئی ہے کتنے ہی تاج
یا بہتر ہو کہ تاجوں کی جگہ دستار اڑاؤ جو واقعی اڑ بھی سکتے ہیں۔
اڑا کر لے گئی دستار کتنے
دوسرے کو
’یہی گستاخ ظالم سی صبا ہے
کیا جا سکتا ہے۔
 
اب کم از کم مستعمل بحر کی کوشش ہے۔ مفاعیلن مفاعیلن فعولن

نہ جانے کون ہے کیوں ہے کیا ہے
ہمیں بھی لوگ کہتے ہیں ،خدا ہے
÷÷مفہوم سے قطع نظر، پہلے مصرع میں ’کیا‘ سوالیہ ہے تو اسے محض ’کا‘ تقطیع کرنا چاہیے۔ فعل والا کِیا ہے تو ’فعو‘ تقطیع ہو گا۔ جیسا یہاں ہو رہا ہے۔

نہیں معلوم کیسی ہوتی ہے یہ
یہاں کچھ لوگ کہتے ہیں وفا ہے
÷÷یہ اکثر لکھتا ہوں کہ مصرع بثر کے قریب تر ہونے سے روانی بہتر ہوتی ہے۔ اور حروف کا اسقاط بھی کم سے کم ہو۔
اب تمہارے مصرع کے ساتھ یہ مصرع پڑھو
؎نہیں معلوم یہ ہوتی ہے کیسی
کون سا بہتر محسوس ہو رہا ہے؟

نہیں سنتا وہ رب اب کوئی میری
مگر لو گ پھر بھی کہتے ہیں دعا ہے
÷÷لوگ کا واؤ کا اسقاط جائز نہیں۔ دوسرا مصرع تو یوں ممکن ہے
مگر سب پھر بھی کہتے ہیں، دعا ہے
پہلا مصرع بھی روانی کا طلبگار ہے۔

مقدّر پر ہی جب سب کچھ ہے یارو
تو پھر کیوں دل میں کوئی مدعا ہے
÷÷درست

کبھی آتی ہے اُس بھی یاد میری
کچھ ایسی میرے دل کی سن صدا ہے
÷÷ یہ سوال تو تم نے الگ سے پوچھا ہے، جواب یہاں دیتا ہوں کہ اس کو ’اسے‘ کے معنی میں استعمال نہیں کیا جا سکتا۔یہ مصرع یوں ہو سکتا ہے
کبھی آتی ہے میری یاد اسے بھی
لیکن دوسرا مصرع بے معنی ہے۔

نئے اشعار
اسے میں نے بہت ڈھونڈھا نہ پایا
وہ پھر کہتے ہیں تم ہم سے گلا ہے
۔۔’تم ہم سے گلا ہے‘ بے معنی ہے۔

وہ کتنے تاجوں کو جو لے اڑی ہے
یہ تو گستاخ ظالم سی صبا ہے
۔۔یہ، وہ اور جو تینوں ضمیریں ایک ساتھ استعمال ہوئی ہیں۔ روانی بھی متاثر ہے۔
یوں کہو تو
اڑا کر لے گئی ہے کتنے ہی تاج
یا بہتر ہو کہ تاجوں کی جگہ دستار اڑاؤ جو واقعی اڑ بھی سکتے ہیں۔
اڑا کر لے گئی دستار کتنے
دوسرے کو
’یہی گستاخ ظالم سی صبا ہے
کیا جا سکتا ہے۔

بہت شکریہ سر وقت سکھنے کا ملتا ہے جزاک الله خیرا تبدیلی کر دی
 
Top