غزل برائے اصلاح "فاعلاتن مفاعلن فَعِلن"

عشق کا اب ملال تھوڑی ہے
دل ہے جی یرغمال تھوڑی ہے

باتوں کی بات ہے میاں کوئی
چار لمحوں کا سال تھوڑی ہے

موت تو ہم کو آنی ہے آخر
عشقِ جی کو زوال تھوڑی ہے

یہ ترے حسن کی کرامت ہے
تیرا اس میں کمال تھوڑی ہے

یہ مری ذات پر ہیں سب کے سب
ان پہ کوئی سوال تھوڑی ہے

آپ کا مجھ خیال تھوڑی ہے
اور کوئی اِتصال تھوڑی ہے

پھول کا ذکر میں کیا کرتا
پھول اس کی مثال تھوڑی ہے

یہ فقط اک کتاب ہے صاحب
یہ مرے پاس ڈھال تھوڑی ہے

وہ غزل میں کہاں سے لاتا جی
یہ غزل ہے غزال تھوڑی ہے
سر الف عین
 
آخری تدوین:
تھوڑا ہی ہے بمعنی بالکل نہیں ہے غلط العام میں تھوڑی ہے ہوگیا لیکن ہمارے ناقص خیال کے مطابق شعر میں استعمال شاید جائز نہ ہو؟ کیا فرماتے ہیں فقہائے شعروادب بیچ اس مسئلے کے؟
 
تھوڑا ہی ہے بمعنی بالکل نہیں ہے غلط العام میں تھوڑی ہے ہوگیا لیکن ہمارے ناقص خیال کے مطابق شعر میں استعمال شاید جائز نہ ہو؟ کیا فرماتے ہیں فقہائے شعروادب بیچ اس مسئلے کے؟
شاعر راحت اندوری کی مشہور غزل
اگر خلاف ہیں، ہونے دو، جان تھوڑی ہے
 
پھول کا ذکر میں کیا کرتا
پھول اس کی مثال تھوڑی ہے
"کیا کرتا" بمعنی کیوں کرتا، کیسے کرتا کا غلط تلفظ باندھا ہے آپ نے۔

اگر یہ استمراری کے معنوں میں باندھا ہے تو درست ہوسکتا تھا لیکن اس صورت میں دوسرے مصرع میں مضمون پورا نہیں ہورہا۔
 
آخری تدوین:
شکریہ سر
خاک سے آدم کر دکھلایا یہ منت کیا تھوڑی ہے
اب سر خاک بھی ہو جاوے تو سر سے کیا احسان گیا
میر تقی میر
جزاک اللہ سر
 

الف عین

لائبریرین
تھوڑی ہے تو قبول کیا جا سکتا ہے میرے خیال میں۔ اب ایک ایک کر کے پوسٹ مارٹم

عشق کا اب ملال تھوڑی ہے
دل ہے جی یرغمال تھوڑی ہے
۔۔دو لخت ہے۔ دونوں میں ربط نہیں لگ رہا۔ ’دل ہے جی‘ کا بیابیہ بھی اچھا نہیں
باتوں کی بات ہے میاں کوئی
چار لمحوں کا سال تھوڑی ہے
÷÷ چارلمحے کیوں!! اس کا مفہوم بھی سمجھ نہیں سکا۔
موت تو ہم کو آنی ہے آخر
عشقِ جی کو زوال تھوڑی ہے
۔۔۔ عشقِ جی!!! ’جی‘ ہندی الاصل ہے۔ اضافت غلط ہے۔ ’عشق بھی لا زوال تھوڑی ہے‘ کہیں تو ممکن ہے۔

یہ ترے حسن کی کرامت ہے
تیرا اس میں کمال تھوڑی ہے
÷÷خوب، درست

یہ مری ذات پر ہیں سب کے سب
ان پہ کوئی سوال تھوڑی ہے
÷÷واضح نہیں، یہ کون؟

آپ کا مجھ خیال تھوڑی ہے
اور کوئی اِتصال تھوڑی ہے
بیچ میں ایک اور مطلع؟ وہ بھی بے معنی!!! خلیل میاں کا ددرست مشورہ ہے

پھول کا ذکر میں کیا کرتا
پھول اس کی مثال تھوڑی ہے
۔۔ کیا اور کَیا پر بات ہو چکی۔ الفاظ بدلو تاکہ کسی کو غلط فہمی نہ ہو۔ جیسے
پھول کا ذکر کیوں کروں آخر

یہ فقط اک کتاب ہے صاحب
یہ مرے پاس ڈھال تھوڑی ہے
÷÷درست،

وہ غزل میں کہاں سے لاتا جی
یہ غزل ہے غزال تھوڑی ہے
÷÷÷غزال ہوتا تو لے آتے!!! یہ بھی بے معنی لگتا ہے
 
تھوڑی ہے تو قبول کیا جا سکتا ہے میرے خیال میں۔ اب ایک ایک کر کے پوسٹ مارٹم

عشق کا اب ملال تھوڑی ہے
دل ہے جی یرغمال تھوڑی ہے
۔۔دو لخت ہے۔ دونوں میں ربط نہیں لگ رہا۔ ’دل ہے جی‘ کا بیابیہ بھی اچھا نہیں
باتوں کی بات ہے میاں کوئی
چار لمحوں کا سال تھوڑی ہے
÷÷ چارلمحے کیوں!! اس کا مفہوم بھی سمجھ نہیں سکا۔
موت تو ہم کو آنی ہے آخر
عشقِ جی کو زوال تھوڑی ہے
۔۔۔ عشقِ جی!!! ’جی‘ ہندی الاصل ہے۔ اضافت غلط ہے۔ ’عشق بھی لا زوال تھوڑی ہے‘ کہیں تو ممکن ہے۔

یہ ترے حسن کی کرامت ہے
تیرا اس میں کمال تھوڑی ہے
÷÷خوب، درست

یہ مری ذات پر ہیں سب کے سب
ان پہ کوئی سوال تھوڑی ہے
÷÷واضح نہیں، یہ کون؟

آپ کا مجھ خیال تھوڑی ہے
اور کوئی اِتصال تھوڑی ہے
بیچ میں ایک اور مطلع؟ وہ بھی بے معنی!!! خلیل میاں کا ددرست مشورہ ہے

پھول کا ذکر میں کیا کرتا
پھول اس کی مثال تھوڑی ہے
۔۔ کیا اور کَیا پر بات ہو چکی۔ الفاظ بدلو تاکہ کسی کو غلط فہمی نہ ہو۔ جیسے
پھول کا ذکر کیوں کروں آخر

یہ فقط اک کتاب ہے صاحب
یہ مرے پاس ڈھال تھوڑی ہے
÷÷درست،

وہ غزل میں کہاں سے لاتا جی
یہ غزل ہے غزال تھوڑی ہے
÷÷÷غزال ہوتا تو لے آتے!!! یہ بھی بے معنی لگتا ہے
شکریہ سر
 
Top