فرحان محمد خان
محفلین
عشق کا اب ملال تھوڑی ہے
دل ہے جی یرغمال تھوڑی ہے
باتوں کی بات ہے میاں کوئی
چار لمحوں کا سال تھوڑی ہے
موت تو ہم کو آنی ہے آخر
عشقِ جی کو زوال تھوڑی ہے
یہ ترے حسن کی کرامت ہے
تیرا اس میں کمال تھوڑی ہے
یہ مری ذات پر ہیں سب کے سب
ان پہ کوئی سوال تھوڑی ہے
آپ کا مجھ خیال تھوڑی ہے
اور کوئی اِتصال تھوڑی ہے
پھول کا ذکر میں کیا کرتا
پھول اس کی مثال تھوڑی ہے
یہ فقط اک کتاب ہے صاحب
یہ مرے پاس ڈھال تھوڑی ہے
وہ غزل میں کہاں سے لاتا جی
یہ غزل ہے غزال تھوڑی ہے
سر الف عین
دل ہے جی یرغمال تھوڑی ہے
باتوں کی بات ہے میاں کوئی
چار لمحوں کا سال تھوڑی ہے
موت تو ہم کو آنی ہے آخر
عشقِ جی کو زوال تھوڑی ہے
یہ ترے حسن کی کرامت ہے
تیرا اس میں کمال تھوڑی ہے
یہ مری ذات پر ہیں سب کے سب
ان پہ کوئی سوال تھوڑی ہے
آپ کا مجھ خیال تھوڑی ہے
اور کوئی اِتصال تھوڑی ہے
پھول کا ذکر میں کیا کرتا
پھول اس کی مثال تھوڑی ہے
یہ فقط اک کتاب ہے صاحب
یہ مرے پاس ڈھال تھوڑی ہے
وہ غزل میں کہاں سے لاتا جی
یہ غزل ہے غزال تھوڑی ہے
سر الف عین
آخری تدوین: