"ترا وجود نظر کی تلاش میں ہے ابھی" جاوید احمد غامدی

ترا وجود نظر کی تلاش میں ہے ابھی
یہ خاک اپنے شرر کی تلاش میں ہے ابھی

پہنچ ہی جائے گا منزل پہ کارواں اپنا
اگرچہ رختِ سفر کی تلاش میں ہے ابھی

افق سے ڈھونڈ کے لائی تھی آرزو جس کو
وہ آفتاب سحر کی تلاش میں ہے ابھی

تری نوا میں کمالِ ہنر تو ہے ، پھر بھی
ذرا سے خونِ جگر کی تلاش میں ہے ابھی

سمجھ ہی لے گا حقیقت سے آشنا ہو کر
زمانہ فوقِ بشر کی تلاش میں ہے ابھی

حضورِ عشق میںآئی تو ہے خرد ، لیکن
وہاں بھی نفع و ضرر کی تلاش میں ہے ابھی

مرا غزال سوادِ ختن میں آ پہنچا
سنا ہے اپنے ہی گھر کی تلاش میں ہے ابھی​
جاوید احمد غامدی
 
Top