"ہم اُن کو بھلا دیں، یہ ارادہ بھی نہیں تھا" جاوید احمد غامدی

ہم اُن کو بھلا دیں، یہ ارادہ بھی نہیں تھا
رنج اُن سے کبھی اتنا زیادہ بھی نہیں تھا

شاطر کے اشاروں ہی پہ چلتا رہا، لیکن
بے گانۂ احوال پیادہ بھی نہیں تھا

وہ لوگ بھی کیا تھے کہ وہاں نغمہ سرا تھے
جس شہر میں ایک آدمی زادہ بھی نہیں تھا

ساقی سے گلہ کیا ہے کہ جس کے لیے آئے
مے خانے میں وہ ساغر و بادہ بھی نہیں تھا

ہم جس کے مسافر تھے، وہ منزل نہیں آئی
دیکھا تو قدم برسرجادہ بھی نہیں تھا

درویش خدا مست تھا، رخصت ہوا ہم سے
سادہ سا وہ اک شخص کہ سادہ بھی نہیں تھا
جاوید احمد غامدی
 
17155407_1354034021307212_973423151971886556_n.jpg
 

عباد اللہ

محفلین
واہ فیض کی غزل یاد آ گئی
گو سب کو بہم ساغر و بادہ تو نہیں تھا
یہ شہر اداس اتنا زیادہ تو نہیں تھا
گلیوں میں پھرا کرتے تھے دو چار دوانے
ہر شخص کا صد چاک لبادہ تو نہیں تھا
منزل کو نہ پہچانے رہِ عشق کا راہی
ناداں ہی سہی، ایسا بھی سادہ تو نہیں تھا
تھک کر یونہی پل بھر کےلئے آنکھ لگی تھی
سو کر ہی نہ اٹھیں یہ ارادہ تو نہیں تھا
واعظ سے رہ و رسم رہی رند سے صحبت
فرق ان میں کوئی اتنا زیادہ تو نہیں تھا
 
واہ فیض کی غزل یاد آ گئی
گو سب کو بہم ساغر و بادہ تو نہیں تھا
یہ شہر اداس اتنا زیادہ تو نہیں تھا
گلیوں میں پھرا کرتے تھے دو چار دوانے
ہر شخص کا صد چاک لبادہ تو نہیں تھا
منزل کو نہ پہچانے رہِ عشق کا راہی
ناداں ہی سہی، ایسا بھی سادہ تو نہیں تھا
تھک کر یونہی پل بھر کےلئے آنکھ لگی تھی
سو کر ہی نہ اٹھیں یہ ارادہ تو نہیں تھا
واعظ سے رہ و رسم رہی رند سے صحبت
فرق ان میں کوئی اتنا زیادہ تو نہیں تھا
خود بھی یہی یاد آئی تھی
 
Top