نتائج تلاش

  1. سید فصیح احمد

    میرے تیار کیئے گئے کچھ نئے Interior Designs!

    لوگ مجھے سے اکثر پوچھتے ہیں میں کہاں غائب ہوں۔ اسی سلسلے میں کچھ شریک کر رہا ہوں۔ سعودی وزارت زراعت کے کچھ حصے! سعودیہ میں ایک ڈینٹل کلینک! ایک گھر کا حصہ! اب تک تو اتنا ہی باقی پھر کبھی :) :)
  2. سید فصیح احمد

    "وعدہ خِلاف"

    جُدا ہوتے ہوئے بہت سے عہد و پیمان ہوئے، کئی معاہدے وجود پائے! ۔۔۔۔۔۔۔ پھِر کافی عرصہ گزر گیا۔ ایک دِن اُسے احساس ہُوا کہ وہ تمام کیئے وعدے رفتہ رفتہ بھول رہا ہے۔ بہت فِکر ہوئی تو اس نے تمام وہ کام کرنے شروع کر دیئے جو "اُسے" نا پسند تھے۔ یوں جب بھی کوئی وعدہ ٹوٹتا تو وہ جلدی سے اُسے لِکھ لیتا۔...
  3. سید فصیح احمد

    " پنچ لائن "

    ۔۔ اور آخر موم کے ڈھیر میں ۔۔۔۔۔ جلا ہوا دھاگہ دفن ہو گیا! ۔۔۔۔۔ کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ کہانی اپنی پنچ لائن سے شروع ہو کر اپنے آغاز کی طرف سفر کرتی ہے ۔۔۔۔۔ اب سوال اٹھیں گے کہ دھاگہ کیوں جلا؟ کیسے جلا؟ کتنا جلا؟ کس کے لیئے جلا؟ خود جلا یا جلایا گیا؟ ۔۔۔۔۔ اور یوں سب کہانی کے آغاز کو...
  4. سید فصیح احمد

    غزل برائے اصلاح

    اساتذاہ اور سینئرز سے راہنمائی کی درخواست ہے۔ میں تو نظروں کا قیدی ہوں کہ حد بندی نہیں کوئی ہلا دے جو یہ نیلی چھت وہ فریادی نہیں کوئی خیالوں میں وہ ناری ہے تو اب سردی نہیں کوئی چلا آرام سے خنجر مجھے جلدی نہیں کوئی میں تو اندر سے بنجر ہوں کہ آبادی نہیں کوئی حسن بازار میں بِکتا بِنا...
  5. سید فصیح احمد

    "ایک ملاقات کا قصہ" ۔۔۔۔۔۔ آزاد نظم برائے اصلاح

    میری پہلی کوشش آزاد نظم لکھنے کی، اساتذہ سے بے لاگ رائے کی درخواست ہے۔ سرمئی جب شام آئی بھولے بسرے چند یاروں کی اچانک کچھ بھلی یادیں مجھے ملنے چلی آ ئیں فقط یادیں ہی تھیں پر یوں لگا جیسے تھکے ہو ئے بدن میں تازگی آ جائے لمسِ دلنشیں بھی لوٹ آیا ان پیاروں کا تو کتنی دیر چھڑتے ہی گئے قصے پرانے...
  6. سید فصیح احمد

    ایک غزل برائے اصلاح

    اساتذہ سے راہنمائی کی درخواست ہے۔ یوں اچانک بدل جاتے ہیں لوگ کچھ مات گرگٹ کو دے جاتے ہیں لوگ کچھ حق کی کہنے سے ہم باز آتے نہیں گو ہمیں ڈھیر سمجھاتے ہیں لوگ کچھ دل کا کمرہ کبھی خالی رہتا نہیں جب بھی دیکھو چلے آتے ہیں لوگ کچھ جا کے کوئی بھی ان کو نہیں دیکھتا کب سے اس پار چلاتے ہیں لوگ کچھ سچ...
  7. سید فصیح احمد

    ایک شعر برائے اصلاح!

    آج کا انسان کس حد تک اکیلا ہے اسے بیان کرنا چاہا، اساتذہ سے راہنمائی کی درخواست ہے۔ لے لیئے درس نئے، مہر و محبت بھولے توڑ دی رسم جفا کی بھی نئے لوگوں نے
  8. سید فصیح احمد

    ایک غزل برائے اصلاح!

    پُرانی اِک کہانی ہے جو نقشِ زندگانی ہے نکلتا ہے دمِ آخر محبت جاودانی ہے یہ لازم ہے کیا اے دِل کہ اب منہ کی ہی کھانی ہے نہیں پکڑو گے عبرت تم ابھی جوشِ جوانی ہے حقیقت میں تو سب ہے یک تغیر بس لسانی ہے (مفاعیلن مفاعیلن)
  9. سید فصیح احمد

    ابن انشا " امن کا آخری دن "

    ابنِ انشاء کی برسی کے موقع پر ان کی ایک شاہکار نظم شریک کرتا ہوں، گو کہ یہ ایک طویل فن پارہ ہے لیکن کیا ہی عمدہ ہے! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ " امن کا آخری دن " آج کیوں...
  10. سید فصیح احمد

    آرکیسٹرا ۔۔۔۔۔۔ ( از فصیح احمد )

    چاند کی چودھویں کا پہرِ جوبن تھا۔ سمند کے ساحل کنارے ایک لڑکی اپنے محبوب کی گود میں سر رکھے چاند کو دیکھ رہی تھی اور لڑکا اپنی محبوبہ کی سیاہ گھن گھور زلفیں سلجھا رہا تھا۔ اس روح پرور ماحول میں سمندر، لہروں کے اضطراب پر راگ مدہوشی کے مد و جزر الاپ رہا تھا۔ کئی کوس دور بحری جہازوں کی رہنمائی کے...
  11. سید فصیح احمد

    بارے لہور دے ! - استاد دامن

    دَس کھاں شہر لہور اندر، کنِے بُوہے تے کنِیاں بارِیاں نیں؟ نالے دَس کھاں اوتھوں دِیاں اِٹاں، کنِیاں ٹٹُیاں تے کنِیاں سارِیاں نیں؟ دَس کھاں شہر لہور اندر کھُوہیاں کنِیاں مٹِھیاں تے کنِیاں کھارِیاں نیں؟ ذرا سوچ کے دیویں جواب مینوں، اوتھے کنِیاں ویاہیاں تے کنِیاں کنواریاں نیں؟ دَساں میں شہر لہور...
  12. سید فصیح احمد

    میری رائے

    لغوی حیثیت و مقام کے برعکس، معنوی ضوابط سے کہیں بعید، اپنی ہی ایک ڈگر پر عام عوام کے مابین کسی قول یا فعل کا تاثراتی، ساختی یا علامتی طور رواج پا جانا ایک ایسی اہم بات ہے جس کا ادبی نشستوں سے مطعلق ہر صحابِ مکرم کو خیال رکھنا چاہیئے۔ خاص طور لکھنے والوں کو کیوں کہ وہی اصل تجزیہ نگار ہوتے ہیں اور...
  13. سید فصیح احمد

    پہنچ سے دُور چمکتا سراب یعنی تُو (رحمان فارس)

    پہنچ سے دُور چمکتا سراب یعنی تُو مجھے دکھایا گیا ایک خواب یعنی تُو مَیں جانتا ھوں ببُول اور گلاب کے معنی ببُول یعنی زمانہ ، گلاب یعنی تُو جمالیات کو پڑھنے کا شوق تھا ، سو مجھے عطا ھوا ھے مکمل نصاب یعنی تُو کہاں یہ ذرّہء تاریک بخت یعنی مَیں کہاں وہ نُور بھرا ماھتاب یعنی تُو بدل گئی ھے بہت...
  14. سید فصیح احمد

    جون ایلیا بے اثبات

    کس کو فرصت ہے کہ مجھ سے بحث کرے اور ثابت کرے کہ میرا وجود زندگی کے لیئے ضروری ہے
  15. سید فصیح احمد

    یوسفی تیماردار!

    لگے ہاتھوں، عیادت کرنے والوں کی ایک اورقسم کا تعارف کرا دوں۔ یہ حضرات جدید طریق کار برتتے اورنفسیات کا ہر اصول داؤں پر لگا دیتے ہیں۔ ہر پانچ منٹ بعد پوچھتے ہیں کہ افاقہ ہوا یا نہیں ؟ گویا مریض سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ عالم نزع میں بھی ان کی معلومات عامہ میں اضافہ کرنے کی غرض سے RUNNING COMMENTARY...
  16. سید فصیح احمد

    اقتباسات بھوک اور بھکاری!

    اندھا بھکاری:کھڑکی کب کھلے گی؟ منی:جب مسافر کھانا کھا چکیں گے۔ اندھا بھکاری:مسافر کب کھانا ختم کریں گے؟ منی:جب کھڑکی کھلے گی۔ اندھا بھکاری:جب کھڑکی کھلے گی۔۔۔ کب کھڑکی کھلے گی؟میں کچھ نہیں جانتا۔ منی تو کیا کہہ رہی ہے۔۔۔ جب سے میری آنکھوں میں روشنی نہیں رہی، مجھے وقت پر بھیک کی روٹی بھی کوئی...
  17. سید فصیح احمد

    منیر نیازی وصال کی خواہش

    کہہ بھی دے اب وہ سب باتیں جو دل میں پوشیدہ ہیں سارے روپ دکھا دے مجھ کو جو اب تک نادیدہ ہیں ایک ہی رات کے تارے ہیں ہم دونوں اس کو جانتے ہیں دوری اور مجبوری کیا ہے اس کو بھی پہچانتے ہیں کیوں پھر دونوں مل نہیں سکتے کیوں یہ بندھن ٹوٹا ہے یا کوئی کھوٹ ہے تیرے دل میں یا میرا غم جھوٹا ہے
  18. سید فصیح احمد

    جون ایلیا اے کوئے یار تیرے زمانے گزر گئے

    اے کوئے یار تیرے زمانے گزر گئے جو اپنے گھر سے آئے تھے وہ اپنے گھر گئے اب کون زخم و زہر سے رکھے گا سلسلے جینے کی اب ہوس ہے ہمیں ہم تو مر گئے اب کیا کہوں کہ سارا محلہ ہے شرم سار میں ہوں عذاب میں کہ میرے زخم بھر گئے ہم نے بھی زندگی کو تماشہ بنا دیا اس سے گزر گئے کبھی خود سے گزر گئے
  19. سید فصیح احمد

    جون ایلیا کب پتا یار کو ہم اپنے لکھا کرتے ہیں

    کب پتا یار کو ہم اپنے لکھا کرتے ہیں جانے ہم خود میں کہ نا خود میں رہا کرتے ہیں اب تم شہر کے آداب سمجھ لو جانی جو مِلا ہی نہیں کرتے وہ مِلا کرتے ہیں جہلا علم کی تعظیم میں برباد گئے جہل کا عیش جو ہے وہ علما کرتے ہیں لمحے لمحے میں جیو جان اگر جینا ہے یعنی ہم حرصِ بقا کو بھی فنا کرتے ہیں جانے اس...
  20. سید فصیح احمد

    اقتباسِ نظم!

    اعجاز گُل کی ایک نظم سے ، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھیلا عجب غبار ہے آئینہ گاہ میں مشکل ہے خود کو ڈھونڈنا عکسِ تباہ میں لمحہ بہ لمحہ ٹوٹ رہا ہے یہ خاک داں معدوم ہو رہا ہوں میں اپنے غبار میں لا حاصلی کی بھیڑ میں کیا تذکرہ کہ تُو آگے قطار میں ہے کہ پیچھے قطار میں جتنا کہ اس طلب کو کشادہ کیا...
Top