ایک غزل برائے اصلاح!

سید فصیح احمد

لائبریرین
پُرانی اِک کہانی ہے
جو نقشِ زندگانی ہے

نکلتا ہے دمِ آخر
محبت جاودانی ہے

یہ لازم ہے کیا اے دِل
کہ اب منہ کی ہی کھانی ہے

نہیں پکڑو گے عبرت تم
ابھی جوشِ جوانی ہے

حقیقت میں تو سب ہے یک
تغیر بس لسانی ہے

(مفاعیلن مفاعیلن)
 

الف عین

لائبریرین
یہ لازم ہے کیا اے دِل
کہ اب منہ کی ہی کھانی ہے
÷÷پہلا مصرع بحر سے خارج ہے۔ کیا بر وزن کا تقطیع ہونا چاہئے تھا۔ اسے یوں کر یں
یہ ہے لازم ہی کیا اے دل

حقیقت میں تو سب ہے یک
تغیر بس لسانی ہے
÷÷ یک کی فارسی ترکیب یہاں اچھی نہیں لگتی
حقیقت میں سبھی ہیں ایک
کہا جا سکتا ہے۔
باقی اشعار درست ہیں۔
 
بزرگ ہیں نا، بات بات سے بزرگی کا پتہ چلتا ہے، مثلاً: لحاظ کر جانا، چھوٹی موٹی اغلاط سے صرفِ نظر کر جانا۔ یقیناً بزرگوں کا دم غنیمت ہے۔

کہاں مجھ سا تلخ نوا، جو پھٹ سے کہہ دے: کیا کر رہے ہو، میاں فصیح! اور پھر ۔۔ :bee:
 
پُرانی اِک کہانی ہے
جو نقشِ زندگانی ہے
پرانی اک ۔۔ کچھ اچھا نہیں لگا، مسئلہ اوزان کا نہیں اظہار کا ہے۔ اور پھر نقشِ زندگانی کیا ہوا، زندگانی تو خود نقش ہے۔ یا تو اس کہانی کو دل پر نقش کیجئے، یا پھر اس (موجود) زندگی کے نقش کو برزخ کے اُس پار لے جائیے۔ پرانی سی کہانی ہو تو کیسا لگے؟ کچھ نئی نئی سی کچھ پرانی پرانی سی، ملی جلی ۔ یا کچھ ایسا ہو یا اس سے کچھ ہٹ کر ہو:
وہی کہنہ کہانی ہے
جو طرزِ زندگانی ہے
 
نکلتا ہے دمِ آخر
محبت جاودانی ہے
دمِ آخر تو ہوا: آخرِ کار ۔۔ تو کیا نکلتا ہے یا نکل جاتا ہے، یا کچھ کھُلتا ہے؟ اگر یہ آخری سانس ہے تو بات ویسے بیان نہیں ہوئی۔ سانس کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے، محبت زندہ رہتی ہے۔ بھیا اگر یہ کہنا ہے تو لفظوں کو کچھ ادھر اُدھر کیجئے۔ مثال کے طور پر:
نکل جاتا ہے دم آخر
 
یہ لازم ہے کیا اے دِل
کہ اب منہ کی ہی کھانی ہے

تو کیا لازم ہے یہ؟ اے دل ۔۔۔ یا کوئی اور انداز اپنائیے، لفظ "کیا" (استفہامیہ) کی نشان دہی جناب الف عین نے کر دی۔ محاورے کا استعمال شعر کو نکھارتا ہے۔
 
نہیں پکڑو گے عبرت تم
ابھی جوشِ جوانی ہے
عبرت پکڑنا ۔ محاورے کی صحت جناب اعجاز عبید سے صاد کرا لیں۔ ۔۔۔۔ عبرت تم پتہ نہیں کیوں مجھے کچھ بھایا نہیں۔ ان دونوں لفظوں کی جگہ باہم بدل کر دیکھ لیجئے، ادا کرنے میں نرمی آتی ہے تو اپنا لیجئے: نہیں پکڑو گے تم عبرت ۔۔
 
حقیقت میں تو سب ہے یک
تغیر بس لسانی ہے

جناب اعجاز عبید صاحب کے کہے پر کچھ زیادہ کرتا ہوں۔ لفظ یک کا استعمال یہاں کوئی لسانی مسئلہ پیدا نہیں کر رہا، تاہم شعر کی اسلوبیاتی بُنَت میں اجنبی سا لگ رہا اے۔ شعر میں اجنبیت رہے تو قاری تو قریب نہیں پھٹکے گا۔ اور ہاں، یہ مت کہئے گا کہ جی میں شعر تو اپنے لئے کہتا ہوں، اپنے کتھارسس کے لئے۔ اپنے کتھارسس کے لئے شعر کہنا ہی کیا لازم ہے؟ وہ تو سوچ لینا ہی بہت ہے؛ اپنی تسلی ہو گئی۔

فرق یا امتیاز یا انفرادیت ۔۔۔ اور تغیر ۔۔۔ یہ مختلف باتیں ہیں صاحب۔ تغیر ہوتا ہے ایک چیز عمل مظہر بات صورتِ حال خیال شکل کا بدل جانا یا بدلتے رہنا، یہ زبانی تحریری کچھ نہیں ہوتا۔ فرق ہوتا ہے یا امتیاز ہوتا ہے یا تفاوت ہوتا ہے جس کو بیان کرتے ہیں یا ایک بات کو بیان کرنے میں یا اس کو سمجھنے میں فرق آ جاتا ہے، وہ تغیر نہیں ہے ایک لفظ ابھی ذہن میں تھا، نکل گیا۔

ایک اہم تر بات کہ اگر آپ اس شعر میں فلسفہء وحدت الوجود یا وحدت الشہود جیسا کوئی نظریہ بیان کرنا چاہ رہے ہیں تو اُس کے لئے اتنے تھوڑے الفاظ بہت ناکافی ہوں گے۔ اپنے نفسِ مضمون کا دائرہ اتنا ہی پھیلائیں کہ وہ بیان ہو پائے۔
 
آخری تدوین:

سید فصیح احمد

لائبریرین
السلام علیکم! سب سے پہلے تو میں اپنے دونوں مہرباں اساتذہ اکرام محترم الف عین اور محترم محمد یعقوب آسی صاحبان کا شکر گزار ہوں کہ خاکسار کی ادنیٰ کوشش کو بہتر بنانے میں ہمیشہ کی طرح بے لاگ رائے عطا فرمائی۔ میں در حقیقت شعر گوئی میں ابھی بہت کم عمر ہوں۔ کئی باتیں سمجھ نہیں آتیں اور اسی کے لیئے آپ جیسے مخلص لوگوں سے راہنمائی طلب کرتا ہوں۔ میں نے آپ دونوں کی اصلاحی رائے پڑھی اور کافی حد تک سمجھا بھی۔ اس دوران کچھ سوال ذہن میں ابھرے جو میں کچھ ہی دیر میں حاضر کروں گا۔ وجہ یہ کہ ابھی دفتری آفات سے نمٹنے میں مصروف ہوں۔ آپ دونوں سے آئندہ کے لیئے بھی گزارش ہے کہ میری اصلاح فرماتے کسی بھی قسم کا لحاظ نہ کیا جائے!
جزاک اللہ خیر! :)
 
حقیقت ایک ہے سب کی
حقیقت سب کی یکساں ہے
اصولاً ایک ہیں سارے
سبھی اُس اِک کے پرتو ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی سا طریقہ ہو سکتا ہے۔
ہمہ یک بود در اصلا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ
 
Top