ابن انشا " امن کا آخری دن "

سید فصیح احمد

لائبریرین
ابنِ انشاء کی برسی کے موقع پر ان کی ایک شاہکار نظم شریک کرتا ہوں، گو کہ یہ ایک طویل فن پارہ ہے لیکن کیا ہی عمدہ ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

" امن کا آخری دن "

آج کیوں شام کے اخبار کی ہر سُرخی میں
ایک اک لفظ بُنے جاتا ہے اُلجھے ہوئے جال
وسوسے اُمڈے ہوئے چلے آتے ہیں بادل بادل
کلبلاتے ہیں پڑے ذہن کے گوشوں میں خیال
اب تو ہر سطر سے آنے لگی بارُود کی بُو
اب تو ہر صحفے سے بےکھٹکے گزرنا ہے محال
بہرٍ شب خون بڑھے آتے ہیں یادوں کے ہجوم
دیکھیں کیا حال بنے صبح کے ہوتے ہوتے
اتنی سوچیں ہیں کہ پہلے کبھی سوچی نہ تھیں
اتنے چہرے ہیں کہ پہلے کبھی دیکھے نہ تھے
اب تو کابوس کی صورت رگ و پے پہ ہیں محیط
شام تک وہ جو سبھی نقش تھے دُھندلے دُھندلے
الف آندھی ہے کہ مغرب سے اُٹھا چاہتی ہے
الف اُمید چراغٍ تہِ داماں ہے ابھی
الف ایٹم ہے یا بآغوش ہزاراں آشوب
الف آدم کہ بہ غم چاکِ گریباں ہے ابھی
الف اک امن کہ جاں دی تھی تو پایا تھا اسے
الف اک اشک کہ مژگاں پہ فروزاں ہے ابھی
ب وہ بندوق کہ اک روز کہیں سر ہوگی
ب وہ بمباروں کا جھرمٹ ہے کہ بڑھتا آئے
کبھی دہقاں کے گھروندے پہ تو خرمن پہ کبھی
بےاماں برق کا کوندا ہی پڑا لہرائے
قریے قریے سے لپکتی ہوئی لاٹیں اُٹھیں
بستی بستی شراروں سے جھلستا جائے
پ ہے پنشن کہ سپاہی کو شجاعت کے عوض
ایک پہلو میں ٹھمکتی سی بساکھی دے جائے
پ وہ پلٹن ہے کہ اُڑ کر میداں پہنچی
پ وہ پیارے ہیں کہ میداں سے نہ واپس آئے
ت وہ نغمہ ہے کہ برسوں کی ریاضت سے ملے
اور کسی لاش کی چھاتی پہ چمکتا رہ جائے
ٹ کسی باغِ جوانی کی لچکتی ٹہنی
بم کے اُڑتے ہوئے ٹکڑوں سے پارا پارا
بوڑھے ماں باپ کی برسوں کی دعاؤں کا ثمر
ث کسی اجنبی میدان میں دم توڑ گیا
لوٹتے قدموں سے گونجے گی نہ گھر کی دہلیز
‘آپ کا لختٍ جگر ملک پہ قُربان ہُوا‘
ج وہ جنگ کا بازار ہے جس میں جا کر
اتنی صدیوں میں بھی انسان کی قیمت نہ بڑھی
چ وہ چاندی ہے وہ چاندی کے چمکتے سکے
جن سے دُنیا کی ہر اک چیز خریدی نہ گئی
پھر بھی ہر بیس برس بعد وہی سودے ہیں
وہی تاجر ہیں وہی جنس ہے قیمت بھی وہی
ح حکایت ہے کہ ہونٹوں پہ ادھوری رہ جائے
ح وہ حسرت ہے کہ سینے کو بنا لے مدفن
خ خیالات کا ریلا ہے کہ یکسر رُک جائے
دب کے رہ جائے جو خندق کے خلاؤں میں بدن
ٹینک کر دیں گے ہر اک ڈھیر کو آ کر ہموار
بےنشاں قبروں پہ اُگ آئیں گے دو سال میں بَن
د ہے درد سے لبریز دلوں کی دھرتی
ڈ ہے ڈولتا سینہ کبھی ڈھلتا آنسو
ذ ہے ذکر کسی دوست کا وہ ذکرٍ جمیل
ہائے کن رفتہ بہاروں کے گلوں کی خوشبو
آج لاشوں کے تعفن میں دبی جاتی ہے
سرد سنگینون کے زخموں سے اُبلتا ہے لہو
ر وہی ریل کی سیٹی وہی رعنا چہرہ
ر وہی رات وہی اُس کے بھیانک سپنے
چونک کر کون یہ بستر سے یکایک اُٹھا
“میرے بچے کو خداوند سلامت رکھے”
ایک تارا کہیں ٹُوٹا کہیں ڈُوب گیا
ڈاکیا آئے گا دو روز میں اک تار لئے
ز ہے وہ زہر کہ پھر روح میں گُھل جائے گا
ز ہے وہ زخم کہ لاتا ہے خبر دل تک سے
اب بھی بستی میں بڑے پیر کا میلہ ہو گا
لہلہاتے ہوئے کھیتوں میں بہار آئے گی
پر نہ ان راہوں سے لوٹے گا بنسی والا
اب چراگاہ میں گونجیں گی نہ تانیں اُس کی
س سہرا کسی دُولہا کا کسی سیج کا پُھول
س جلتا ہوا سیسہ کسی سنگین کی دھار
س ساحر ہیں کہ سیاست کے گھر میں بیٹھے
اپنے زانو پہ لئے صبح کے سارے اخبار
سوچا کرتے ہیں یہ پڑھتے ہوئے تازہ خبریں
روئی کے بھاؤ میں ہوتا ہے چڑھاؤ کہ اُتار
اپنے اس شہر سے ہیں دُور وہ میداں جن میں
ش شعلہ ہے کہ بارُود کا سینہ چاٹے
کسی مسجد کا منارہ، کسی اسکول کی چھت
اک دھماکے میں سُلگتا ہوا ملبہ بن جائے
کوئی کھیتی کوئی کرخانہ کوئی پُل کوئی ریل
ایک دُنیا ہے کہ برسوں میں بنائے نہ بنے
ص وہ صبح کہ ہر ذہن کی پنہائی میں
لا کے بو دیتی ہے نادیدہ صلیبوں کی قطار
ض خبروں کے ضمیموں کا وہ اُگلا ہوا زہر
جس سے کچھ اور ہی بڑھ جاتا ہے وحشت کا فشار
ناچنے لگتے ہیں بیتابی سے فہرستوں کے نام
آنکھیں بن جاتی ہیں روتے ہوئے اشکوں کے مزار
ط طبروق کا صحرا ہے جہاں سے اب بھی
اپنے گم گشتہ عزیزوں کی صدا آتی ہے
اس جگہ فتح کی خبریں ہیں نہ جلسے نہ جلوس
ایک صرصر ہے کہ آتی ہے گزر جاتی ہے
استخوانوں سے بھلا کس کو محبت ہوگی
یاں کوئی دوست نہ ہمدم نہ ملاقاتی ہے
ظ ظلمت کا دریا ہے کہ طوفاں بدوش
آس کی ننھی سی کشتی کو ڈبونے آئے
اور جب ظلم کی میعاد سے دن اور بڑھیں
ع وہ عشرتٍ فردا ہے کہ عنقا ہو جائے
غ وہ غم ہے کہ جاناں سے نہ دوراں سے ہے خاص
دل مگر اس کی کسک سے نہ سنبھلنے پائے
ف وہ فتح کہ کچھ لے تو گئی دے نہ سکی
ف وہ فردا ہے کہ چھلاوے کا چھلاوا ہی رہا
ق قریہ ہے کہ اتنا بھی نہ ویراں تھا کبھی
اب نہ چُولھوں سے دُھواں اُٹھتا ہے نیلا نیلا
اور نہ کھیت نہ وہ فصلیں نہ وہ رکھوالے
ایک اک گاؤں کے چوپال میں اُلو بولا
ک نینوں کے کمل، ک کتابی چہرے
ک کاکل ہے کہ خوشبو میں بسی رہتی ہے
اور جب دُور کے دیسوں کے سپاہی آئے
ک کرگس نے کُھلے کھیت میں بازی جیتی
کوریا کتنے خرابوں کا پتا دیتا ہے
یہ جگہ شہر تھی یہ گاؤں تھا یہ بستی تھی
گ گاتی ہوئی گولی ہے کہ گن سے نکلے
کسی گمنام سپاہی کا نشانہ باندھے
ایک سایہ کسی کھائی میں تڑپتا رہ جائے
اپنی برسوں کی تمناؤں کو سینے میں لئے
گ گبرو ہے کہ بائیس بہاروں میں پلے
ل لاشہ ہے کہ دو روز کے اندر سڑ جائے
م محبوب کا آغوش بھی ہے موت بھی ہے
ایک ہی وقت میں ممکن نہیں دونوں سے نبھا
ن ندی کا مدھر نغمہ بھی نیپام بھی ہے
اب اسے دوست بناؤ کہ اُسے دوست بناؤ
زیست اور موت میں مشکل نہیں جانبداری
سیدھی باتوں کو دلیلوں کے لبادے نہ پہناؤ
و وقت ہے کہ ہاتھوں سے ہے نکلا جائے
واہمے دیتے ہیں آ کر درٍ دل پر دستک
فاختہ کتنی بھی طیار و سُبک سیر سہی
سینکڑوں کوس ہیں بمبار کی رفتار تلک
امن کے گیت کی لے تیز کرو تیز کرو
ساحلٍ دُور سے آنے لگی توپوں کی دھمک
ہ وہ ہیرو ہیں کہ پھر نکلے ہیں چھیلے بن کر
بستی بستی کو ہیروشیما بنانے کے لئے
ی وہ یادیں ہیں کہ دھندلائیں نہ مٹنے پائیں
اور ہم جنگ کی دہلیز پہ پھر آ نکلے
ی وہ یوسف کہ خدا کو بھی نہ سونپے جائیں
پھر انہی اجنبی میدانوں کا رستہ لیں گے
آسماں تیرہ و تاریک ہے، تارے مغموم
چاند بادل سے نکلتے ہوئے گھبراتا ہے
شمعِ اُمید کی لو کانپ رہی ہے کب سے
دل دُھواں دھار گھٹاؤں میں دبا جاتا ہے
لو کسی دُور کے گرجا میں وہ گھڑیال بجا
قافلہ صبح کا آتا ہے۔۔۔۔کہاں آتا ہے؟
 
Top