غزل
(میلہ رام وفا)
محفل میں اِدھر اور اُدھر دیکھ رہے ہیں
ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں
عالم ہے ترے پَرتو رُخ سے یہ ہمارا
حیرت سے ہمیں شمس و قمر دیکھ رہے ہیں
بھاگے چلے جاتے ہیں اِدھر کو تو عجب کیا
رُخ لوگ ہواؤں کا جدھر دیکھ رہے ہیں
ہوگی نہ شبِ غم تو قیامت سے ادھر ختم
ہم شام ہی سے...
غزل
(کفیل آزر امروہوی)
جاتے جاتے یہ نشانی دے گیا
وہ مری آنکھوں میں پانی دے گیا
جاگتے لمحوں کی چادر اوڑھ کر
کوئی خوابوں کو جوانی دے گیا
میرے ہاتھوں سے کھلونے چھین کر
مجھ کو زخموں کی کہانی دے گیا
حل نہ تھا مشکل کا کوئی اس کے پاس
صرف وعدے آسمانی دے گیا
خود سے شرمندہ مجھے ہونا پڑا...
غزل
(طفیل چترویدی)
ظلم کو تیرے یہ طاقت نہیں ملنے والی
دیکھ تجھ کو مری بیعت نہیں ملنے والی
لوگ کردار کی جانب بھی نظر رکھتے ہیں
صرف دستار سے عزت نہیں ملنے والی
شہر تلوار سے تم جیت گئے ہو لیکن
یوں دلوں کی تو حکومت نہیں ملنے والی
راستے میں اسے دیکھا ہے کئی روز کے بعد
آج تو رونے کو فرصت...
غزل
(نشور واحدی)
قامتِ دل ربا پر شباب آ گیا
یا سوا نیزے پر آفتاب آ گیا
جاگی جاگی ان آنکھوں کا عالم نہ پوچھ
سامنے ایک جام شراب آ گیا
اک نگاہ محبت کی تخمیر میں
سب سمٹ کر جہان خراب آ گیا
یہ چلے وہ بڑھے وہ جواں ہو گئے
چند لمحوں میں یوم الحساب آ گیا
جھوم اٹھی ایک ارماں بھری زندگی
جب...
غزل
(گلزار)
زندگی یوں ہوئی بسر تنہا
قافلہ ساتھ اور سفر تنہا
اپنے سائے سے چونک جاتے ہیں
عمر گزری ہے اس قدر تنہا
رات بھر باتیں کرتے ہیں تارے
رات کاٹے کوئی کدھر تنہا
ڈوبنے والے پار جا اترے
نقش پا اپنے چھوڑ کر تنہا
دن گزرتا نہیں ہے لوگوں میں
رات ہوتی نہیں بسر تنہا
ہم نے دروازے تک تو...
غزل
(جگر بریلوی)
محبت تم سے ہے لیکن جدا ہیں
حسیں ہو تم تو ہم بھی پارسا ہیں
ہمیں کیا اس سے وہ کون اور کیا ہیں
یہ کیا کم ہے حسیں ہیں دل ربا ہیں
زمانے میں کسے فرصت جو دیکھے
سخنور کون شے ہیں اور کیا ہیں
مٹاتے رہتے ہیں ہم اپنی ہستی
کہ آگاہ مزاج دل ربا ہیں
نہ جانے درمیاں کون آ گیا ہے
نہ...
غزل
(عبدالحمید عدم)
ہنس ہنس کے جام جام کو چھلکا کے پی گیا
وہ خود پلا رہے تھے میں لہرا کے پی گیا
توبہ کے ٹوٹنے کا بھی کچھ کچھ ملال تھا
تھم تھم کے سوچ سوچ کے شرما کے پی گیا
ساغر بدست بیٹھی رہی میری آرزو
ساقی شفق سے جام کو ٹکرا کے پی گیا
وہ دشمنوں کے طنز کو ٹھکرا کے پی گئے
میں دوستوں کے...
غزل
(فراق گورکھپوری)
زمیں بدلی فلک بدلا مذاق زندگی بدلا
تمدن کے قدیم اقدار بدلے آدمی بدلا
خدا و اہرمن بدلے وہ ایمان دوئی بدلا
حدود خیر و شر بدلے مذاق کافری بدلا
نئے انسان کا جب دور خود نا آگہی بدلا
رموز بے خودی بدلے تقاضائے خودی بدلا
بدلتے جا رہے ہیں ہم بھی دنیا کو بدلنے میں
نہیں بدلی...
غزل
(سُرُور بارہ بنکوی)
اے جنوں کچھ تو کُھلے آخر میں کس منزل میں ہوں
ہوں جوارِ یار میں یا کوچۂ قاتل میں ہوں
پا بہ جولاں اپنے شانوں پر لیے اپنی صلیب
میں سفیرِ حق ہوں لیکن نرغۂ باطل میں ہوں
جشنِ فردا کے تصور سے لہو گردش میں ہے
حال میں ہوں اور زندہ اپنے مستقبل میں ہوں
دم بخود ہوں اب سرِ...
غزل
(سُرُور بارہ بنکوی)
تو عُروسِ شامِ خیال بھی تو جمالِ روئے سحر بھی ہے
یہ ضرور ہے کہ بہ ایں ہمہ مرا اہتمام نظر بھی ہے
نہ ہو مضمحل مرے ہم سفر تجھے شاید اس کی نہیں خبر
انہیں ظلمتوں ہی کے دوش پر ابھی کاروان سحر بھی ہے
یہ مرا نصیب ہے ہم نشیں سر راہ بھی نہ ملے کہیں
وہی مرا جادۂ جستجو وہی ان کی...
غزل
(سُرُور بارہ بنکوی)
دست و پا ہیں سب کے شل اک دست قاتل کے سوا
رقص کوئی بھی نہ ہوگا رقص بسمل کے سوا
متفق اس پر سبھی ہیں کیا خدا کیا ناخدا
یہ سفینہ اب کہیں بھی جائے ساحل کے سوا
میں جہاں پر تھا وہاں سے لوٹنا ممکن نہ تھا
اور تم بھی آ گئے تھے پاس کچھ دل کے سوا
زندگی کے رنگ سارے ایک تیرے...
غزل
(سُرُور بارہ بنکوی)
فصلِ گُل کیا کر گئی آشفتہ سامانوں کے ساتھ
ہاتھ ہیں الجھے ہوئے اب تک گریبانوں کے ساتھ
تیرے مے خانوں کی اک لغزش کا حاصل کچھ نہ پوچھ
زندگی ہے آج تک گردش میں پیمانوں کے ساتھ
دیکھنا ہے تا بہ منزل ہم سفر رہتا ہے کون
یوں تو عالم چل پڑا ہے آج دیوانوں کے ساتھ
ان حسیں...
غزل
(محبوب خزاں)
جنوں سے کھیلتے ہیں آگہی سے کھیلتے ہیں
یہاں تو اہل سخن آدمی سے کھیلتے ہیں
نگار مے کدہ سب سے زیادہ قابل رحم
وہ تشنہ کام ہیں جو تشنگی سے کھیلتے ہیں
تمام عمر یہ افسردگان محفل گل
کلی کو چھیڑتے ہیں بے کلی سے کھیلتے ہیں
فراز عشق نشیب جہاں سے پہلے تھا
کسی سے کھیل چکے ہیں کسی...
غزل
(محبوب خزاں)
حال ایسا نہیں کہ تم سے کہیں
ایک جھگڑا نہیں کہ تم سے کہیں
زیر لب آہ بھی محال ہوئی
درد اتنا نہیں کہ تم سے کہیں
تم زلیخا نہیں کہ ہم سے کہو
ہم مسیحا نہیں کہ تم سے کہیں
سب سمجھتے ہیں اور سب چپ ہیں
کوئی کہتا نہیں کہ تم سے کہیں
کس سے پوچھیں کہ وصل میں کیا ہے
ہجر میں کیا...
غزل
(شہریار)
دیارِ دل نہ رہا بزمِ دوستاں نہ رہی
اماں کی کوئی جگہ زیرِ آسماں نہ رہی
رواں ہیں آج بھی رگ رگ میں خون کی موجیں
مگر وہ ایک خلش وہ متاعِ جاں نہ رہی
لڑیں غموں کے اندھیروں سے کس کی خاطر ہم
کوئی کرن بھی تو اس دل میں ضو فشاں نہ رہی
میں اس کو دیکھ کے آنکھوں کا نور کھو بیٹھا
یہ...
غزل
(شہریار)
جہاں میں ہونے کو اے دوست یوں تو سب ہوگا
ترے لبوں پہ مرے لب ہوں ایسا کب ہوگا
اسی امید پہ کب سے دھڑک رہا ہے دل
ترے حضور کسی روز یہ طلب ہوگا
مکاں تو ہوں گے مکینوں سے سب مگر خالی
یہاں بھی دیکھوں تماشا یہ ایک شب ہوگا
کوئی نہیں ہے جو بتلائے میرے لوگوں کو
ہوا کے رخ کے بدلنے سے...