فرقان احمد

محفلین
گلاب چہروں سے دل لگانا، وہ چپکے چپکے نظر ملانا
وہ آرزوؤں کے خواب بننا، وہ قصہ نا تمام لکھنا

میرے نگر کی حسین فضاؤ! کہیں جو اُن کا نشان پاؤ
تو پوچھنایہ، کہاں بسے وہ، کہاں ہے اُن کا قیام لکھنا

حسن رضوی
 

یاز

محفلین
یاں لب پہ لاکھ لاکھ سُخن اِضطراب میں
واں ایک خامشی تِری، سب کے جواب میں

خط دیکھ کر وہ آئے بہت پیچ و تاب میں
کیا جانے میں نے لکھ دِیا کیا اِضطراب میں
ذوق
 

حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
چھپ جاتے ہو لحظہ لحظہ منہ دکھلا کر
کیا مار ہی ڈالو گے ہمیں ترسا کر
آنا ہے تمہیں تو آ مِلو جیتے جی
مر جاویں گے ہم، تو کیا کرو گے آ کر

(غلام ہمدانی مصحفی)
 

فہد اشرف

محفلین
وہ عشق بہت مشکل تھا مگر آسان نہ تھا یوں جینا بھی
اس عشق نے زندہ رہنے کا مجھے ظرف دیا پندار دیا
عبید اللہ علیم
 

حسان خان

لائبریرین
محبوبِ زیبا و قاتل کے برائے کہی گئی ایک بیت:
اولیاؤں کو بھی کھینچا اُس نے آخر زیرِ تیغ
تو کہے وہ قاتلوں میں عصر کا چنگیز تھا
(غلام ہمدانی مصحفی)
 

حسان خان

لائبریرین
شہرِ شیراز - فصاحت کا مرکز اور علامت:
مصحفی آفریں اس تیرے لب و لہجے پر
کہ فصاحت نے تری ہند کو شیراز کیا

(غلام ہمدانی مصحفی)
 

حسان خان

لائبریرین
قېلدې پیدا حُکمِ تقویمِ کُهن گُل دفتری
آچدېلار تا چهرهٔ دل‌دارېمې نقّاش‌لار
(صائب تبریزی)

جب نقّاشوں نے میرے دلدار کا چہرہ کھولا (یعنی ظاہر کیا) تو دفترِ گل تقویمِ کُہن کی مانند ہو گیا۔
(یعنی چہرۂ معشوق نے گُل کی زیبائی کو بے آبرو و بے قیمت کر دیا۔)
× دفتر = ڈائری × تقویم = کیلینڈر

Qıldı peyda hökmi-təqvimi-kühən gül dəftəri
Açdılar ta çöhrei-dildarımı nəqqaşlar

صائب تبریزی کی مندرجۂ بالا تُرکی بیت کی مانند، میر حسن نے بھی اپنی مثنوی 'سحرالبیان' کی ایک نعتیہ بیت میں 'تقویمِ کُہن ہو جانے' یا 'تقویمِ پار/کُہنہ کے مِثل بے قدر ہو جانے' کا محاورہ استعمال کیا ہے:
ہوا علمِ دیں اُس کا جو آشکار
گذشتہ ہوئے حُکم تقویمِ پار

(میر حسن دہلوی)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ہر مور و مگَس کو نہیں اس مصری سے رشتہ
شیرینیِ لب تیری مُبرّا ہے مگَس سے
(میر حسن دہلوی)


× مور = چیونٹی
 
خیالِ جلوۂ گُل سے خراب ہیں مے کش
شراب خانے کے دیوار و در میں خاک نہیں
ہُوا ہوں عشق کی غارت گری سے شرمندہ
سوائے حسرتِ تعمیر۔ گھر میں خاک نہیں
غالب
 
Top