نتائج تلاش

  1. فرخ منظور

    میر پڑھتے پھریں گے گلیوں میں ان ریختوں کو لوگ ۔ میر تقی میر

    پڑھتے پھریں گے گلیوں میں ان ریختوں کو لوگ مدت رہیں گی یاد یہ باتیں ہماریاں مکمل غزل مشہور ہیں دلوں کی مرے بےقراریاں جاتی ہیں لامکاں کو دلِ شب کی زاریاں چہرے پہ جیسے زخم ہےناخن کا ہر خراش اب دیدنی ہوئی ہیں مری دست کاریاں سو بار ہم نے گُل کے کہے پر چمن کے بیچ بھر دی ہیں آبِ‌ چشم سے راتوں کو...
  2. فرخ منظور

    میر زباں رکھ غنچہ ساں اپنے دہن میں ۔ میر تقی میر

    زباں رکھ غنچہ ساں اپنے دہن میں بندھی مٹھی چلا جا اس چمن میں نہ کھول اے یار! میرا گور میں منھ کہ حسرت ہے مری جاگہ کفن میں رکھا کر ہاتھ دل پر، آہ کرتے نہیں رہتا چراغ ایسی پون میں جلے دل کی مصیبت اپنی سن کر لگی ہے آگ سارے تن بدن میں نہ تجھ بن ہوش میں ہم آئے ساقی مسافر ہی رہے اکثروطن میں...
  3. فرخ منظور

    میر آ جائیں ہم نظر جو کوئی دم بہت ہے یاں ۔ میر تقی میر

    آ جائیں ہم نظر جو کوئی دم بہت ہے یاں مہلت ہمیں بسانِ شرر کم بہت ہے یاں یک لحظہ سینہ کوبی سے فرصت ہمیں نہیں یعنی کہ دل کے جانے کا ماتم بہت ہے یاں حاصل ہے کیا سوائے ترائی کے دہر میں اُٹھ آسماں تلے سے کہ شبنم بہت ہے یاں مائل بغیر ہونا تجھ ابرو کا عیب ہے تھی زور یہ کماں ولے خم چم بہت ہے یاں ہم...
  4. فرخ منظور

    جگر ہر حقیقت کو باندازِ تماشا دیکھا ۔ جگر مراد آبادی

    ہر حقیقت کو باندازِ تماشا دیکھا خوب دیکھا ترے جلوؤں کو مگر کیا دیکھا جستجو میں تری یہ حاصل ِسودا دیکھا ایک اک ذرہ کا آغوشِ طلب وا دیکھا آئینہ خانۂ عالم میں کہیں کیا دیکھا تیرے دھوکے میں خود اپنا ہی تماشا دیکھا ہم نے ایسا نہ کوئی دیکھنے والا دیکھا جو یہ کہہ دے کہ ترا حسن ِسراپا دیکھا کوئی...
  5. فرخ منظور

    جس گھڑی تیرے آستاں سے گئے ۔ نواب آصف الدولہ

    ان اشعار کے اوازن کسی صاحبِ عروض سے درست کروا لیں۔ :)
  6. فرخ منظور

    جگر پرائے ہاتھوں جینے کی ہوس کیا ۔ جگر مراد آبادی

    بہت شکریہ تلمیذ صاحب۔ دراصل پہلے القلم پر مصروف ہوتا تھا۔ اب کسی وجہ سے القلم بند ہے تے ظاہر ہے ساڈی ٹھرک تے رک نہیں سکدی ۔ خوش روو سر جی! :)
  7. فرخ منظور

    جگر پرائے ہاتھوں جینے کی ہوس کیا ۔ جگر مراد آبادی

    پرائے ہاتھوں جینے کی ہوس کیا نشیمن ہی نہیں تو پھر قفس کیا مکان و لامکاں سے بھی گزر جا فضائے شوق میں پروازِ خس کیا کرم صّیاد کے صد ہا ہیں پھر بھی فراغِ خاطرِ اہلِ قفس کیا؟ محبت سرفروشی، جاں سپاری محبت میں خیالِ پیش و پس کیا اجل خود زندگی سے کانپتی ہے اجل کی زندگی پر دسترس کیا زمانے پر قیامت...
  8. فرخ منظور

    جس گھڑی تیرے آستاں سے گئے ۔ نواب آصف الدولہ

    جس گھڑی تیرے آستاں سے گئے ہم نے جانا کہ دو جہاں سے گئے تیرے کوچے میں نقشِ پا کی طرح ایسے بیٹھے کہ پھر نہ واں سے گئے شمع کی طرح رفتہ رفتہ ہم ایسے گزرے کہ جسم و جاں سے گئے (ق) ایک دن میں نے یار سے یہ کہا اب تو ہم طاقت و تواں سے گئے ہنس کے بولا کہ سن لے اے آصفؔ یہی کہہ کہہ کے لاکھوں جاں سے گئے...
  9. فرخ منظور

    جگر یک لحظہ خوشی کا جب انجام نظر آیا ۔ جگر مراد آبادی

    یک لحظہ خوشی کا جب انجام نظر آیا شبنم کو ہنسی آئی، دل غنچوں کا بھر آیا یہ کون تصور میں ہنگامِ سحر آیا محسوس ہوا جیسے خود عرش اتر آیا خیر اس کو نظر آیا، شر اس کو نظر آیا آئینے میں خود عکسِ آئینہ نگر آیا اُس بزم سے دل لے کر کیا آج اثر آیا ظالم جسے سمجھے تھے، مظلوم نظر آیا اس جانِ تغافل نے پھر...
  10. فرخ منظور

    جگر غزل-دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد (جگر مراد آبادی

    دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد اب مجھ کو نہیں کچھ بھی محبت کے سوا یاد میں شکوہ بہ لب تھا مجھے یہ بھی نہ رہا یاد شاید کہ مرے بھولنے والے نے کیا یاد چھیڑا تھا جسے پہلے پہل تیری نظر نے اب تک ہے وہ اک نغمۂ بے ساز و صدا یاد جب کوئی حسیں ہوتا ہے سرگرم ِنوازش اس وقت وہ کچھ اور بھی آتے ہیں سوا...
  11. فرخ منظور

    فانی یوں نظمِ جہاں درہم و برہم نہ ہوا تھا ۔ فانی بدایونی

    یوں نظمِ جہاں درہم و برہم نہ ہوا تھا ایسا بھی ترے حسنِ کا عالم نہ ہوا تھا پھر چھیڑ دیا وسعتِ محشر کی فضا نے سودا ترےوحشی کا ابھی کم نہ ہُوا تھا یا عشرتِ دو روزہ تھا یا حسرتِ دیروز وہ لمحۂ ہستی جو ابھی غم نہ ہوا تھا صد حیف وہ گُل ہو کفِ گُل چیں میں جو اب تک آزردۂ آویزشِ شبنم نہ ہوا تھا قاتل...
  12. فرخ منظور

    وہ نگاہیں کیاکہوں کیوں کر رگِ جاں ہوگئیں ۔ عزیز لکھنوی

    وہ نگاہیں کیاکہوں کیوں کر رگِ جاں ہوگئیں دل میں نشتر بن کے ڈوبیں اور پنہاں ہوگئیں تھیں جوکل تک جلوہ افروزی سےشمعِ انجمن آج وہ شکلیں چراغِ زیرِ داماں ھو گئیں اک نظرگھبراکےکی اپنی طرف اُس شوخ نے ہستیاں جب مٹ کے اجزائے پریشاں ہوگئیں اُڑکےدل کی خاک کےذرےگئےجس جس طرف رفتہ رفتہ وہ زمینیں سب بیاباں...
  13. فرخ منظور

    دلِ صد پارہ ایک بسمل کا ۔ عزیز لکھنوی

    دلِ صد پارہ ایک بسمل کا آئینہ ہے فروغِ محفل کا کون اٹھا یہ جھاڑ کر دامن ہے دگرگوں جو رنگ محفل کا شوقِ دل بڑھ گیا ہے حد سے سوا فاصلہ گھٹ گیا ہے منزل کا اہلِ محفل سے ہے گلہ بے سود مجھ کو شکوہ ہے میرِ محفل کا دونوں عالم کی قوتیں مل کر کر تو لیتیں مقابلہ دل کا حال تیرا عزیزؔ کون سنے رنگ بدلا...
  14. فرخ منظور

    مقصود امتحاں جو نہ تھا اضطراب کا ۔ عزیز لکھنوی

    مقصود امتحاں جو نہ تھا اضطراب کا پھر کیوں شبِ وصال بہانہ تھا خواب کا آگے خدا کو علم ہے کیا جانے کیا ہوا بس اُن کے رُخ سے یاد ہے اٹھنا نقاب کا پوچھا ہے میرا حال کسی بے نیاز نے کیا پوچھنا ہے اب دلِ خانہ خراب کا منتِ کشِ اثر نہ ہوئی شکر ہے دعا بڑھتا وگرنہ شوق دلِ بے حجاب کا فطرت کو بھی خیالِ...
  15. فرخ منظور

    دیکھ کر ہر در و دیوار کو حیراں ہونا ۔ عزیز لکھنوی

    دیکھ کر ہر در و دیوار کو حیراں ہونا وہ مرا پہلے پہل داخلِ زِنداں ہونا قابلِ دید ہے اس گھر کا بھی ویراں ہونا جس کے ہر گوشہ میں مخفی تھا بیاباں ہونا جی نہ اٹھوں گا ہے بے کار پشیماں ہونا جاؤ اب ہو چکا جو کچھ تھا مری جاں ہونا واہمہ مجھ کو دکھا تا ہے جُنوں کے سامان نظر آتا ہے مجھے گھر کا بیاباں...
  16. فرخ منظور

    میرے مرنے کا جو سامان تھا وہ بھی نہ ہوا ۔ عزیز لکھنوی

    میرے مرنے کا جو سامان تھا وہ بھی نہ ہوا شرکتِ مجلسِ ماتم پہ وہ راضی نہ ہوا حسن ہی کیا تہ و بالا جو نہ عالم کر دے دل ہی کیا جس میں کوئی جذبۂ فطری نہ ہوا واہ کیا خوابِ پریشاں تھی خیالی دنیا یوں تو سب کچھ ہوا پھر دیکھا تو کچھ بھی نہ ہوا زلزلے عشق کی دنیا میں ہزاروں آئے آپ پر کوئی بھی عالم کبھی...
  17. فرخ منظور

    بلاتے کیوں ہو عاجز کو بلانا کیامزادے ہے ۔ کلیم عاجز

    شکریہ احمد بھائی۔ دفن کرنا مری میت کو بھی مے خانے میں تاکہ مے خانے کی مٹی رہے مے خانے میں
  18. فرخ منظور

    بلاتے کیوں ہو عاجز کو بلانا کیامزادے ہے ۔ کلیم عاجز

    بلاتے کیوں ہو عاجز کو بلانا کیامزادے ہے غزل کمبخت کچھ ایسے پڑھے ہے دل ہلادے ہے محبت کیابلا ہے چین لیناہی بھلادے ہے ذرابھی آنکھ جھپکے ہے توبیتابی جگادے ہے ترے ہاتھوں کی سرخی خود ثبوت اس بات کا دے ہے کہ جو کہہ دے ہے دیوانہ وہ کرکے بھی دکھادے ہے غضب کی فتنہ سازی آئے ہے اس آفت ِجاں کو شرارت خود...
  19. فرخ منظور

    کیوں دلا ہم ہوئے پابندِ غمِ یار کہ تو ۔ جرات

    کیوں دلا ہم ہوئے پابندِ غمِ یار کہ تو اب اذیّت میں بھلا ہم ہیں گرفتار کہ تو ہم تو کہتے تھے نہ عاشق ہو اب اتنا تو بتا جا کے ہم روتے ہیں پہروں پسِ دیوار کہ تو ہاتھ کیوں عشقِ بتاں سے نہ اٹھایا تو نے کفِ افسوس ہم اب ملتے ہیں ہر بار کہ تو و ہی محفل ہے وہی لوگ وہی چرچا ہے اب بھلا بیٹھے ہیں ہم شکلِ...
Top