پڑھتے پھریں گے گلیوں میں ان ریختوں کو لوگ
مدت رہیں گی یاد یہ باتیں ہماریاں
مکمل غزل
مشہور ہیں دلوں کی مرے بےقراریاں
جاتی ہیں لامکاں کو دلِ شب کی زاریاں
چہرے پہ جیسے زخم ہےناخن کا ہر خراش
اب دیدنی ہوئی ہیں مری دست کاریاں
سو بار ہم نے گُل کے کہے پر چمن کے بیچ
بھر دی ہیں آبِ چشم سے راتوں کو...
زباں رکھ غنچہ ساں اپنے دہن میں
بندھی مٹھی چلا جا اس چمن میں
نہ کھول اے یار! میرا گور میں منھ
کہ حسرت ہے مری جاگہ کفن میں
رکھا کر ہاتھ دل پر، آہ کرتے
نہیں رہتا چراغ ایسی پون میں
جلے دل کی مصیبت اپنی سن کر
لگی ہے آگ سارے تن بدن میں
نہ تجھ بن ہوش میں ہم آئے ساقی
مسافر ہی رہے اکثروطن میں...
آ جائیں ہم نظر جو کوئی دم بہت ہے یاں
مہلت ہمیں بسانِ شرر کم بہت ہے یاں
یک لحظہ سینہ کوبی سے فرصت ہمیں نہیں
یعنی کہ دل کے جانے کا ماتم بہت ہے یاں
حاصل ہے کیا سوائے ترائی کے دہر میں
اُٹھ آسماں تلے سے کہ شبنم بہت ہے یاں
مائل بغیر ہونا تجھ ابرو کا عیب ہے
تھی زور یہ کماں ولے خم چم بہت ہے یاں
ہم...
ہر حقیقت کو باندازِ تماشا دیکھا
خوب دیکھا ترے جلوؤں کو مگر کیا دیکھا
جستجو میں تری یہ حاصل ِسودا دیکھا
ایک اک ذرہ کا آغوشِ طلب وا دیکھا
آئینہ خانۂ عالم میں کہیں کیا دیکھا
تیرے دھوکے میں خود اپنا ہی تماشا دیکھا
ہم نے ایسا نہ کوئی دیکھنے والا دیکھا
جو یہ کہہ دے کہ ترا حسن ِسراپا دیکھا
کوئی...
پرائے ہاتھوں جینے کی ہوس کیا
نشیمن ہی نہیں تو پھر قفس کیا
مکان و لامکاں سے بھی گزر جا
فضائے شوق میں پروازِ خس کیا
کرم صّیاد کے صد ہا ہیں پھر بھی
فراغِ خاطرِ اہلِ قفس کیا؟
محبت سرفروشی، جاں سپاری
محبت میں خیالِ پیش و پس کیا
اجل خود زندگی سے کانپتی ہے
اجل کی زندگی پر دسترس کیا
زمانے پر قیامت...
جس گھڑی تیرے آستاں سے گئے
ہم نے جانا کہ دو جہاں سے گئے
تیرے کوچے میں نقشِ پا کی طرح
ایسے بیٹھے کہ پھر نہ واں سے گئے
شمع کی طرح رفتہ رفتہ ہم
ایسے گزرے کہ جسم و جاں سے گئے
(ق)
ایک دن میں نے یار سے یہ کہا
اب تو ہم طاقت و تواں سے گئے
ہنس کے بولا کہ سن لے اے آصفؔ
یہی کہہ کہہ کے لاکھوں جاں سے گئے...
یک لحظہ خوشی کا جب انجام نظر آیا
شبنم کو ہنسی آئی، دل غنچوں کا بھر آیا
یہ کون تصور میں ہنگامِ سحر آیا
محسوس ہوا جیسے خود عرش اتر آیا
خیر اس کو نظر آیا، شر اس کو نظر آیا
آئینے میں خود عکسِ آئینہ نگر آیا
اُس بزم سے دل لے کر کیا آج اثر آیا
ظالم جسے سمجھے تھے، مظلوم نظر آیا
اس جانِ تغافل نے پھر...
دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد
اب مجھ کو نہیں کچھ بھی محبت کے سوا یاد
میں شکوہ بہ لب تھا مجھے یہ بھی نہ رہا یاد
شاید کہ مرے بھولنے والے نے کیا یاد
چھیڑا تھا جسے پہلے پہل تیری نظر نے
اب تک ہے وہ اک نغمۂ بے ساز و صدا یاد
جب کوئی حسیں ہوتا ہے سرگرم ِنوازش
اس وقت وہ کچھ اور بھی آتے ہیں سوا...
یوں نظمِ جہاں درہم و برہم نہ ہوا تھا
ایسا بھی ترے حسنِ کا عالم نہ ہوا تھا
پھر چھیڑ دیا وسعتِ محشر کی فضا نے
سودا ترےوحشی کا ابھی کم نہ ہُوا تھا
یا عشرتِ دو روزہ تھا یا حسرتِ دیروز
وہ لمحۂ ہستی جو ابھی غم نہ ہوا تھا
صد حیف وہ گُل ہو کفِ گُل چیں میں جو اب تک
آزردۂ آویزشِ شبنم نہ ہوا تھا
قاتل...
وہ نگاہیں کیاکہوں کیوں کر رگِ جاں ہوگئیں
دل میں نشتر بن کے ڈوبیں اور پنہاں ہوگئیں
تھیں جوکل تک جلوہ افروزی سےشمعِ انجمن
آج وہ شکلیں چراغِ زیرِ داماں ھو گئیں
اک نظرگھبراکےکی اپنی طرف اُس شوخ نے
ہستیاں جب مٹ کے اجزائے پریشاں ہوگئیں
اُڑکےدل کی خاک کےذرےگئےجس جس طرف
رفتہ رفتہ وہ زمینیں سب بیاباں...
دلِ صد پارہ ایک بسمل کا
آئینہ ہے فروغِ محفل کا
کون اٹھا یہ جھاڑ کر دامن
ہے دگرگوں جو رنگ محفل کا
شوقِ دل بڑھ گیا ہے حد سے سوا
فاصلہ گھٹ گیا ہے منزل کا
اہلِ محفل سے ہے گلہ بے سود
مجھ کو شکوہ ہے میرِ محفل کا
دونوں عالم کی قوتیں مل کر
کر تو لیتیں مقابلہ دل کا
حال تیرا عزیزؔ کون سنے
رنگ بدلا...
مقصود امتحاں جو نہ تھا اضطراب کا
پھر کیوں شبِ وصال بہانہ تھا خواب کا
آگے خدا کو علم ہے کیا جانے کیا ہوا
بس اُن کے رُخ سے یاد ہے اٹھنا نقاب کا
پوچھا ہے میرا حال کسی بے نیاز نے
کیا پوچھنا ہے اب دلِ خانہ خراب کا
منتِ کشِ اثر نہ ہوئی شکر ہے دعا
بڑھتا وگرنہ شوق دلِ بے حجاب کا
فطرت کو بھی خیالِ...
دیکھ کر ہر در و دیوار کو حیراں ہونا
وہ مرا پہلے پہل داخلِ زِنداں ہونا
قابلِ دید ہے اس گھر کا بھی ویراں ہونا
جس کے ہر گوشہ میں مخفی تھا بیاباں ہونا
جی نہ اٹھوں گا ہے بے کار پشیماں ہونا
جاؤ اب ہو چکا جو کچھ تھا مری جاں ہونا
واہمہ مجھ کو دکھا تا ہے جُنوں کے سامان
نظر آتا ہے مجھے گھر کا بیاباں...
میرے مرنے کا جو سامان تھا وہ بھی نہ ہوا
شرکتِ مجلسِ ماتم پہ وہ راضی نہ ہوا
حسن ہی کیا تہ و بالا جو نہ عالم کر دے
دل ہی کیا جس میں کوئی جذبۂ فطری نہ ہوا
واہ کیا خوابِ پریشاں تھی خیالی دنیا
یوں تو سب کچھ ہوا پھر دیکھا تو کچھ بھی نہ ہوا
زلزلے عشق کی دنیا میں ہزاروں آئے
آپ پر کوئی بھی عالم کبھی...
بلاتے کیوں ہو عاجز کو بلانا کیامزادے ہے
غزل کمبخت کچھ ایسے پڑھے ہے دل ہلادے ہے
محبت کیابلا ہے چین لیناہی بھلادے ہے
ذرابھی آنکھ جھپکے ہے توبیتابی جگادے ہے
ترے ہاتھوں کی سرخی خود ثبوت اس بات کا دے ہے
کہ جو کہہ دے ہے دیوانہ وہ کرکے بھی دکھادے ہے
غضب کی فتنہ سازی آئے ہے اس آفت ِجاں کو
شرارت خود...
کیوں دلا ہم ہوئے پابندِ غمِ یار کہ تو
اب اذیّت میں بھلا ہم ہیں گرفتار کہ تو
ہم تو کہتے تھے نہ عاشق ہو اب اتنا تو بتا
جا کے ہم روتے ہیں پہروں پسِ دیوار کہ تو
ہاتھ کیوں عشقِ بتاں سے نہ اٹھایا تو نے
کفِ افسوس ہم اب ملتے ہیں ہر بار کہ تو
و ہی محفل ہے وہی لوگ وہی چرچا ہے
اب بھلا بیٹھے ہیں ہم شکلِ...