مقصود امتحاں جو نہ تھا اضطراب کا ۔ عزیز لکھنوی

فرخ منظور

لائبریرین
مقصود امتحاں جو نہ تھا اضطراب کا
پھر کیوں شبِ وصال بہانہ تھا خواب کا

آگے خدا کو علم ہے کیا جانے کیا ہوا
بس اُن کے رُخ سے یاد ہے اٹھنا نقاب کا

پوچھا ہے میرا حال کسی بے نیاز نے
کیا پوچھنا ہے اب دلِ خانہ خراب کا

منتِ کشِ اثر نہ ہوئی شکر ہے دعا
بڑھتا وگرنہ شوق دلِ بے حجاب کا

فطرت کو بھی خیالِ مکافاتِ عشق تھا
دل نام اک فرشتہ بنایا عذاب کا

لکھا ہے خط میں عذرِ ستم اُس نے اے عزیزؔ
اب کیا جواب دے کوئی اس کے جواب کا

(عزیزؔ لکھنوی)
 
Top