عزیز لکھنوی

  1. فرخ منظور

    ساقیِ روزِ ازل یہ کیا پلایا تھا مجھے ۔ عزیز لکھنوی

    ساقیِ روزِ ازل یہ کیا پلایا تھا مجھے کچھ خبر بھی ہے تجھے، کب ہوش آیا تھا مجھے شبنم آلودہ کلی ہوں، جوشِ حسرت دل میں ہے اب ہنسائے بھی وہی جس نے رلایا تھا مجھے دل کی کوشش سے حیاتِ جاودانی مل گئی آپ نے تو اپنے امکاں بھر مٹایا تھا مجھے ذرے ذرے میں رہے گی ایک روحِ مضطرب خاک میں کیوں اپنے ہاتھوں سے...
  2. فرخ منظور

    بتاؤں کیا کہ میرے دل میں کیا ہے ۔ عزیز لکھنوی

    بتاؤں کیا کہ میرے دل میں کیا ہے سوا تیرے تری محفل میں کیا ہے یہاں بھی تجھ کو تنہا میں نے پایا تُو ہی تُو ہے، بھری محفل میں کیا ہے کسی کے بجھتے دل کی ہے نشانی چراغِ سرحدِ منزل میں کیا ہے بجز نقشِ پشیمانیِ قاتل نگاہِ حسرتِ بسمل میں کیا ہے جفاؤں کی بھی حد ہوتی ہے کوئی خدا معلوم اس کے دل میں کیا...
  3. فرخ منظور

    وہ نگاہیں کیاکہوں کیوں کر رگِ جاں ہوگئیں ۔ عزیز لکھنوی

    وہ نگاہیں کیاکہوں کیوں کر رگِ جاں ہوگئیں دل میں نشتر بن کے ڈوبیں اور پنہاں ہوگئیں تھیں جوکل تک جلوہ افروزی سےشمعِ انجمن آج وہ شکلیں چراغِ زیرِ داماں ھو گئیں اک نظرگھبراکےکی اپنی طرف اُس شوخ نے ہستیاں جب مٹ کے اجزائے پریشاں ہوگئیں اُڑکےدل کی خاک کےذرےگئےجس جس طرف رفتہ رفتہ وہ زمینیں سب بیاباں...
  4. فرخ منظور

    دلِ صد پارہ ایک بسمل کا ۔ عزیز لکھنوی

    دلِ صد پارہ ایک بسمل کا آئینہ ہے فروغِ محفل کا کون اٹھا یہ جھاڑ کر دامن ہے دگرگوں جو رنگ محفل کا شوقِ دل بڑھ گیا ہے حد سے سوا فاصلہ گھٹ گیا ہے منزل کا اہلِ محفل سے ہے گلہ بے سود مجھ کو شکوہ ہے میرِ محفل کا دونوں عالم کی قوتیں مل کر کر تو لیتیں مقابلہ دل کا حال تیرا عزیزؔ کون سنے رنگ بدلا...
  5. فرخ منظور

    مقصود امتحاں جو نہ تھا اضطراب کا ۔ عزیز لکھنوی

    مقصود امتحاں جو نہ تھا اضطراب کا پھر کیوں شبِ وصال بہانہ تھا خواب کا آگے خدا کو علم ہے کیا جانے کیا ہوا بس اُن کے رُخ سے یاد ہے اٹھنا نقاب کا پوچھا ہے میرا حال کسی بے نیاز نے کیا پوچھنا ہے اب دلِ خانہ خراب کا منتِ کشِ اثر نہ ہوئی شکر ہے دعا بڑھتا وگرنہ شوق دلِ بے حجاب کا فطرت کو بھی خیالِ...
  6. فرخ منظور

    دیکھ کر ہر در و دیوار کو حیراں ہونا ۔ عزیز لکھنوی

    دیکھ کر ہر در و دیوار کو حیراں ہونا وہ مرا پہلے پہل داخلِ زِنداں ہونا قابلِ دید ہے اس گھر کا بھی ویراں ہونا جس کے ہر گوشہ میں مخفی تھا بیاباں ہونا جی نہ اٹھوں گا ہے بے کار پشیماں ہونا جاؤ اب ہو چکا جو کچھ تھا مری جاں ہونا واہمہ مجھ کو دکھا تا ہے جُنوں کے سامان نظر آتا ہے مجھے گھر کا بیاباں...
  7. فرخ منظور

    میرے مرنے کا جو سامان تھا وہ بھی نہ ہوا ۔ عزیز لکھنوی

    میرے مرنے کا جو سامان تھا وہ بھی نہ ہوا شرکتِ مجلسِ ماتم پہ وہ راضی نہ ہوا حسن ہی کیا تہ و بالا جو نہ عالم کر دے دل ہی کیا جس میں کوئی جذبۂ فطری نہ ہوا واہ کیا خوابِ پریشاں تھی خیالی دنیا یوں تو سب کچھ ہوا پھر دیکھا تو کچھ بھی نہ ہوا زلزلے عشق کی دنیا میں ہزاروں آئے آپ پر کوئی بھی عالم کبھی...
  8. طارق شاہ

    عزیز لکھنوی :::: بتاؤں کیا، کہ میرے دِل میں کیا ہے :::: Aziz Lakhnavi

    غزل عزیز لکھنوی بتاؤں کیا، کہ میرے دِل میں کیا ہے سِوا تیرے، تِری محفِل میں کیا ہے یہاں بھی تجھ کو تنہا میں نے پایا تُو ہی تُو ہے بھری محفِل میں کیا ہے کسی کے بُجھتے دِل کی ہے نِشانی چراغِ سرحدِ منزِل میں کیا ہے بجُز نقشِ پشیمانیِ قاتِل ! نگاہِ حسرتِ بسمِل میں کیا ہے جفاؤں کی بھی حد ہوتی...
  9. طارق شاہ

    میرزامحمد ہادی عزیزلکھنوی :::: اُلجھن کاعِلاج آہ کوئی کام نہ آیا -- Aziz Lakhnavi

    غزلِ عزیزلکھنوی اُلجھن کا عِلاج آہ کوئی کام نہ آیا ! جی کھول کے رویا بھی تو آرام نہ آیا دل سینے میں جب تک رہا آرام نہ آیا کام آئے گا کِس کے جو مِرے کام نہ آیا کام اُس کے نہ کاش آئے وہ مغرور بھی یونہی جیسے دلِ آوارہ مِرے کام نہ آیا یہ کہہ کے وہ سرہانے سے بیمار کے اُٹّھے صد شکر، کہ...
  10. طارق شاہ

    میرزا محمد ہادی عزیز لکھنوی :::: جلوہ دکھلائے وہ جو اپنی خود آرائی کا -- Aziz Lakhnavi

    غزلِ عزیزلکھنوی جلوہ دکھلائے جووہ اپنی خود آرائی کا نُور جل جائے ابھی چشمِ تماشائی کا رنگ ہرپُھول میں ہے حُسن خود آرائی کا چمنِ دہر ہے محضر تِری یکتائی کا اپنے مرکز کی طرف مائلِ پرواز تھا حُسن بُھولتا ہی نہیں عالم تِری انگڑائی کا اُف تِرے حُسنِ جہاں سوز کی پُر زور کشِش نُور سب کھینچ لِیا...
Top