میرے مرنے کا جو سامان تھا وہ بھی نہ ہوا ۔ عزیز لکھنوی

فرخ منظور

لائبریرین
میرے مرنے کا جو سامان تھا وہ بھی نہ ہوا
شرکتِ مجلسِ ماتم پہ وہ راضی نہ ہوا

حسن ہی کیا تہ و بالا جو نہ عالم کر دے
دل ہی کیا جس میں کوئی جذبۂ فطری نہ ہوا

واہ کیا خوابِ پریشاں تھی خیالی دنیا
یوں تو سب کچھ ہوا پھر دیکھا تو کچھ بھی نہ ہوا

زلزلے عشق کی دنیا میں ہزاروں آئے
آپ پر کوئی بھی عالم کبھی طاری نہ ہوا

چند باتیں جو دمِ آخر کہی تھیں میں نے
کون فقرہ تھا جو سرمایۂ معنی نہ ہوا

پابہ جولاں تھا یہ میں زورِ جنوں میں کہ کبھی
قائلِ گردشِ ارضی و سماوی نہ ہوا

لذّتِ درد رہی بعدِ فنا بھی دل میں
حصۂ عمر مرے عشق کو کافی نہ ہوا

رات دن گو کہ رہا مشغلۂ خود بینی
تجھ پر آئینہ مگر منظرِ اصلی نہ ہوا

کون تھا دیکھ کے جو رجعتِ پیمانہِ مہر
قائلِ معجزۂ حضرتِ ساقی نہ ہوا

زلفیں کھولی گئی تھیں آج بڑے دعوے سے
خیریت تھی کہ عزیزؔ آپ کا وحشی نہ ہوا

(عزیزؔ لکھنوی)​
 
Top