طارق شاہ
محفلین
غزلِ
عزیزلکھنوی
جلوہ دکھلائے جووہ اپنی خود آرائی کا
نُور جل جائے ابھی چشمِ تماشائی کا
رنگ ہرپُھول میں ہے حُسن خود آرائی کا
چمنِ دہر ہے محضر تِری یکتائی کا
اپنے مرکز کی طرف مائلِ پرواز تھا حُسن
بُھولتا ہی نہیں عالم تِری انگڑائی کا
اُف تِرے حُسنِ جہاں سوز کی پُر زور کشِش
نُور سب کھینچ لِیا چشمِ تماشائی کا
دیکھ کر نظمِ دوعالم، مجھے کہنا ہی پڑا
یہ سلیقہ ہے کسے انجُمن آرائی کا
گُل جو گُلزار میں ہیں گوش برآواز، عزیز
مجھ سے بُلبُل نے لیا طرز یہ شیوائی کا
عزیز لکھنوی