نتائج تلاش

  1. فرخ منظور

    سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے ۔ رام پرساد بسمل

    دراصل اس غزل کے ساتھ عجیب معاملہ ہے۔ معلوم نہیں کہ رام پرساد بسمل نے ہی اسے بدل کر نظم بنا ڈالا یا کسی اور شاعر نے۔ یہ کلام اس شکل میں زیادہ مشہور ہے۔ سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے کیوں نہیں کرتا ہے کوئی دوسرا کچھ بات چیت دیکھتا ہوں میں جسے وہ چپ تیری...
  2. فرخ منظور

    اگر تو دیکھ لے نقشہ رخِ بت کی صفائی کا ۔ حاجی فضل اللہ خان قندھاری

    دور کا تو اندازہ نہیں۔ لیکن یہ غزل شاید ایک پرانی کتاب خمخانۂ جاوید سے لی گئی ہے۔
  3. فرخ منظور

    اٹھ جائے گر یہ بیچ سے پردہ حجاب کا ۔ قائم چاند پوری

    خلیل صاحب براہِ مہربانی عنوان کو بدل دیں یہ قائم چاند پوری کی غزل ہے۔ میں عنوان میں تدوین نہیں کر پا رہا۔
  4. فرخ منظور

    اٹھ جائے گر یہ بیچ سے پردہ حجاب کا ۔ قائم چاند پوری

    یہ میر تقی میر کی غزل نہیں بلکہ قائم چاند پوری کی ہے۔ غلطی سے میر تقی میر لکھا گیا۔
  5. فرخ منظور

    میر جان ہے تو جہان ہے پیارے ۔ میر تقی میر

    میر عمداً َ بھی کوئی مرتا ہے جان ہے تو جہان ہے پیارے مکمل غزل قصد گر امتحان ہے پیارے اب تلک نیم جان ہے پیارے سجدہ کرنے میں سر کٹیں ہیں جہاں سو ترا آستان ہے پیارے گفتگو ریختے میں ہم سے نہ کر یہ ہماری زبان ہے پیارے کام میں قتل کے مرے تن دے اب تلک مجھ میں جان ہے پیارے چھوڑ جاتے ہیں دل کو تیرے...
  6. فرخ منظور

    سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے ۔ رام پرساد بسمل

    سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے اے شہیدِ ملک و ملت میں ترے اوپر نثار لے تری ہمّت کا چرچا غیر کی محفل میں ہے وائے قسمت پاؤں کی اے ضُعف کچھ چلتی نہیں کارواں اپنا ابھی تک پہلی ہی منزل میں ہے رَہ روِ راہِ محبت! رہ نہ جانا راہ میں لذّتِ صحرا نوردی دوری...
  7. فرخ منظور

    کلاسیکی شعرا کے کلام سے انتخاب

    دل کریگا نہ خیالِ رُخِ جاناں خالی کبھی اس گھر کو نہ چھوڑے گا یہ مہماں خالی روز و شب لاکھوں ہی ارمان بھرے رہتے ہیں حسرتوں سے نہیں ہوتا دلِ ناداں خالی باغ میں دیکھ کے تیرے رُخِ رنگیں کی بہار ہوگئے رنگ سے گُلہائے گلستاں خالی وصل کا روز میسر نہیں ہوتاآبادؔ گھر ہمارا نہیں کرتی شبِ ہجراں خالی (...
  8. فرخ منظور

    کلاسیکی شعرا کے کلام سے انتخاب

    سرنگوں رکھتی ہے یادِ رخِ جاناں اپنا ہم کو محرابِ عبادت ہے گریباں اپنا گریۂ دیدۂ پرخوں ہے گلستاں اپنا خندۂ زخمِ جگر ہے گلِ داماں اپنا (امیر اللہ تسلیمؔ لکھنوی)
  9. فرخ منظور

    کلاسیکی شعرا کے کلام سے انتخاب

    کچھ اشارا جو کیا ہم نے ملاقات کے وقت ٹال کر کہنے لگے دن ہے ابھی، رات کے وقت گرچہ مے پینے سے کی توبہ ہے، میں نے ساقی بھول جاتا ہوں ولے تیری مدارات کے وقت موسمِ عیش ہے یہ عہدِجوانی، انشاؔ دور ہیں تیرے ابھی زہد و عبادات کے وقت (انشا اللہ خان انشاؔ)
  10. فرخ منظور

    سیماب اکبر آبادی جو تھا برتاؤ دنیا کا، وہی اُس نے کیا مجھ سے ۔ سیماب اکبر آبادی

    جو تھا برتاؤ دنیا کا، وہی اُس نے کیا مجھ سے میں دنیا سے انوکھا تھا کہ وہ کرتا وفا مجھ سے؟ ہوئی ہے آئینہ خانے میں کیا ایسی خطا مجھ سے کہ تیرا عکس بھی ہے آج شرمایا ہوا مجھ سے تپِ فرقت کا شاید کچھ مداوا ہونے والا ہے کہ اب خود پوچھتے ہیں چارہ گر میری دوا مجھ سے مرے پہلو میں دل رکھ کر مجھے قسمت نے...
  11. فرخ منظور

    میر اب وہ نہیں کہ آنکھیں تھیں پُرآب روز و شب ۔ میر تقی میر

    اب وہ نہیں کہ آنکھیں تھیں پُرآب روز و شب ٹپکا کرے ہے آنکھوں سے خوناب روز و شب اک وقت رونے کا تھا ہمیں بھی خیال سا آتے تھے آنکھوں سے چلے سیلاب روز و شب اُس کے لیے نہ پھرتے تھے ہم خاک چھانتے رہتا تھا پاس وہ دُرِ نایاب روز و شب قدرت تو دیکھ عشق کی، مجھ سے ضعیف کو رکھتا ہے شاد بے خور و بے خواب...
  12. فرخ منظور

    اگر تو دیکھ لے نقشہ رخِ بت کی صفائی کا ۔ حاجی فضل اللہ خان قندھاری

    اگر تو دیکھ لے نقشہ رخِ بت کی صفائی کا تو دعویٰ ٹوٹ جائے شیخ تیری پارسائی کا تری الفت میں او ظالم اگر جیتا بچا اب کے بھروں گا دم نہ ہرگز پھر کسی کی آشنائی کا بہایا پھر تو آنکھوں نے بڑا اک خون کا دریا تصور بندھ گیا دل میں جو اُس دستِ حنائی کا لگاتے دل کبھی ہرگز نہ اپنا اُس ستمگر سے اگر معلوم...
  13. فرخ منظور

    کلاسیکی شعرا کے کلام سے انتخاب

    کیا یہاں سے وہاں سوا ہو گا؟ حشر میں بھی یہی خدا ہو گا (نواب کلب علی خاں)
  14. فرخ منظور

    کلاسیکی شعرا کے کلام سے انتخاب

    ترے رخسارِ تاباں سے ہو کیا ہم تاب مہر اے گُل کہ یوں ہے گلشنِ گردوں میں اِک بتی سی روشن ہے (بہادر شاہ ظفرؔ)
  15. فرخ منظور

    میر خبط کرتا نہیں کنارہ ہنوز ۔ میر تقی میر

    خبط کرتا نہیں کنارہ ہنوز ہے گریبان پارہ پارہ ہنوز آتشِ دل نہیں بجھی شاید قطرہء اشک ہے شرارہ ہنوز اشک جھمکا ہے جب نہ نکلا تھا چرخ پر صبح کا ستارہ ہنوز لب پہ آئی ہے جان کب کی ہے اس کے موقوف یک اشارہ ہنوز عمر گزری دوائیں کرتے میرؔ دردِ دل کا ہوا نہ چارہ ہنوز (میر تقی میرؔ)
  16. فرخ منظور

    ذوق کب حق پرست زاہدِ جنت پرست ہے ۔ ذوق

    کب حق پرست زاہدِ جنت پرست ہے حوروں پہ مر رہا ہے، یہ شہوت پرست ہے دل صاف ہو تو چاہیے معنی پرست ہو آئینہ خاک صاف ہے، صورت پرست ہے درویش ہے وہی جو ریاضت میں چست ہو تارک نہیں فقیر بھی، راحت پرست ہے جز زلف سوجھتا نہیں اے مرغِ دل تجھے خفّاش٭ تو نہیں ہے کہ ظلمت پرست ہے دولت کی رکھ نہ مارِ سرِ گنج...
  17. فرخ منظور

    اٹھ جائے گر یہ بیچ سے پردہ حجاب کا ۔ قائم چاند پوری

    اٹھ جائے گر یہ بیچ سے پردہ حجاب کا دریا ہی پھر تو نام ہے ہر اِک حباب کا کیوں چھوڑتے ہو دُردِ تہِ جام مے کشو ذرّہ ہے یہ بھی آخر اسی آفتاب کا ایسی ہوا میں پاس نہ ساقی نہ جامِ مے رونا بجا ہے حال پہ میرے سحاب کا ہونا تھا زندگی ہی میں منہ شیخ کا سیاہ اس عمر میں ہے ورنہ مزا کیا خضاب کا اِس دشتِ پر...
  18. فرخ منظور

    میر ہوتا نہیں ہے باب اجابت کا وا ہنوز ۔ میر تقی میر

    ہوتا نہیں ہے باب اجابت کا وا ہنوز بسمل پڑی ہے چرخ پہ میری دعا ہنوز دن رات کو کھنچا ہے قیامت کا اور میں پھرتا ہوں منہ پہ خاک ملے، جا بجا ہنوز خط کاڑھ لا کے تم تو مُنڈا بھی چلے ولے ہوتی نہیں ہماری تمہاری صفا ہنوز غنچے چمن چمن کھلے اس باغِ دہر میں دل ہی مرا ہے جو نہیں ہوتا ہے وا ہنوز احوال نامہ...
  19. فرخ منظور

    ذوق اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے ۔ ذوق

    اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے تم نے ٹھہرائی اگر غیر کے گھر جانے کی تو ارادے یہاں کچھ اور ٹھہر جائیں گے خالی اے چارہ گرو! ہوں گے بہت مرہم واں پر مرے زخم نہیں ایسے کہ بھر جائیں گے پہنچیں گے رہِ گزرِ یار تلک کیوں کر ہم پہلے جب تک نہ دو عالم سے...
  20. فرخ منظور

    میر میں کون ہوں اے ہم نفساں، سوختہ جاں ہوں ۔ میر تقی میر

    میں کون ہوں اے ہم نفساں، سوختہ جاں ہوں اک آگ مرے دل میں ہے جو شعلہ فشاں ہوں لایا ہے مرا شوق مجھے پردے سے باہر میں ورنہ وہی خلوتیِ رازِ نہاں ہوں جلوہ ہے مجھی سے لبِ دریائے سخن پر صد رنگ مری موج ہے، میں طبعِ‌رواں ہوں پنجہ ہے مرا پنجۂ خورشید میں ہر صبح میں شانہ صفت سایہ روِ زلفِ بُتاں ہوں دیکھا...
Top