وہی کشفِ ذات کی آرزو
مرا دل گرو، مری جاں گرو!
چلا آ کہ ہے مرا در کھلا
تو مرا نصیب ہے راہرو!
یہ ہوا، یہ برق، یہ رعد و ابر، یہ تیرگی
رہِ انتظار کی نارسی
مرے جان و دل پہ ہیں تو بتو
مرے میہماں ، مرے راہرو!
اے گریز پیا، تو سرابِ دشتِ خلا نہ بن
وہ نوا نہ بن جو فریبِ راہگزار ہو
وہ فسونِ ارض و سما نہ...