نتائج تلاش

  1. فرخ منظور

    مکمل منٹو: ہیولیٰ برقِ خرمن کا ۔ مظفّر علی سیّد

    منٹو: ہیولیٰ برقِ خرمن کا (مظفّر علی سیّد) اس سے پہلے جن شخصیات کے’پروفائل‘ یا نیم رُخ مطالعے لکھ چکا ہوں ،اُن کے سننے والوں میں سے چند ایک کرم فرماؤں کا تقاضا تھا کہ منٹو صاحب کی بھی شخصی یادیں قلمبند کی جائیں۔ مشکل یہ آن پڑی کہ لاہور میں اور لاہور کے آس پاس پانچ ایک برس کا عرصہ گزارنے کے...
  2. فرخ منظور

    مکمل کلام ن م راشد (دوم)

    ہم رات کی خوشبوؤں سے بوجھل اٹھے صبح کے سینے میں نیزے ٹوٹے ، اور ہم رات کی خوشبوؤں سے بوجھل اٹھے ! جسم کے ساحلِ آشفتہ پر اک عشق کا مارا ہوا انسان ہے آسودہ، مرے دل میں ، سرِ ریگ تپاں میں فقط اس کا قصیدہ خواں ہوں ! (ریت پر لیٹے ہوئے شخص کا آوازہ بلند!) دور کی گندم و مے ، صندل و خس لایا ہے تا ک...
  3. فرخ منظور

    میر جو اس شور سے میر روتا رہے گا ۔ میر تقی میر

    شکریہ عاطف صاحب اور ادب دوست صاحب۔ ٹائپو درست کر دیا گیا ہے۔ امید کرتا ہوں کہ مزید بھی کوئی ٹائپو نظر آیا تو اطلاع کرتے رہیں گے۔
  4. فرخ منظور

    میر جو اس شور سے میر روتا رہے گا ۔ میر تقی میر

    جو اس شور سے میر روتا رہے گا تو ہمسایہ کاہے کو سوتا رہے گا میں وہ رونے والا جہاں سے چلا ہوں جسے ابر ہر سال روتا رہے گا مجھے کام رونے سے اکثر ہے ناصح تو کب تک مرے منھ کو دھوتا رہے گا بس اے گریہ آنکھیں تری کیا نہیں ہیں کہاں تک جہاں کو ڈبوتا رہے گا مرے دل نے وہ نالہ پیدا کیا ہے جرس کے بھی جو...
  5. فرخ منظور

    میر غم رہا جب تک کہ دم میں دم رہا ۔ میر تقی میرؔ

    غم رہا جب تک کہ دم میں دم رہا دل کے جانے کا نہایت غم رہا حسن تھا تیرا بہت عالم فریب خط کے آنے پر بھی اک عالم رہا دل نہ پہنچا گوشۂ داماں تلک قطرۂ خوں تھا مژہ پر جم رہا سنتے ہیں لیلیٰ کے خیمے کو سیاہ اس میں مجنوں کا ولے ماتم رہا جامۂ احرامِ زاہد پر نہ جا تھا حرم میں لیک نا محرم رہا زلفیں...
  6. فرخ منظور

    تبسم ایک زرتشتی لڑکی سے ۔ صوفی تبسم

    ایک زرتشتی لڑکی سے کیا عجب باہمی رقابت ہے کیا عجب شانِ دوست داری ہے میں بھی اِک آگ کا پجاری ہوں تُو بھی اِک آگ کی پجاری ہے ہے مگر تیری آگ چند شرر اور مری آگ آتشیں پیکر تُو تو ہے روشنی کی شیدائی اور پروانہ حُسن کا ہوں میں تُو فقط دیکھتی ہے شعلوں کو اور شعلوں میں جل رہا ہوں میں (صوفی تبسم)
  7. فرخ منظور

    مکمل کلام ن م راشد (دوم)

    چلا آ رہا ہوں سمندروں کے وصال سے چلا آ رہا ہوں سمندروں کے وصال سے کئی لذّتوں کا ستم لیے جو سمندروں کے فسوں میں ہیں مرا ذہن ہے وہ صنم لیے وہی ریگ زار ہے سامنے وہی ریگ زار کہ جس میں عشق کے آئنے کسی دستِ غیب سے ٹوٹ کر رہِ تارِ جاں میں بکھر گئے! ابھی آ رہا ہوں سمندروں کی مہک لیے وہ تھپک لیے جو...
  8. فرخ منظور

    امّاں ایسی سگھڑ تھیں

    تحریر وسعت اللہ خان بی بی سی اردو لنک
  9. فرخ منظور

    چُپ رہا تو مار ڈالے گا مجھے میرا ضمیر۔ لب اگر کھولے تو کوئی مار ڈالے گا مجھے (فرخ منظور)

    چُپ رہا تو مار ڈالے گا مجھے میرا ضمیر۔ لب اگر کھولے تو کوئی مار ڈالے گا مجھے (فرخ منظور)
  10. فرخ منظور

    مکمل کلام ن م راشد (دوم)

    اس پیڑ پہ ہے بوم کا سایہ اس پیڑ پہ ہے بوم کا سایہ اس پیڑکا پھیلاؤ زمانوں میں بھی ہے، آج میں بھی اس کی جڑیں ہیں صدیوں سے یہاں لوگ ہر سمت سے آتے بھی بچھڑتے بھی رہے ہیں برگد کے تلےقبر پہ (کیا جانیے کیا دفن ہے!) نذرانوں کے انبار لگے ہیں، خوابیدہ ہے اس پیڑ کے نیچے کوئی مجذوبِ برہنہ اور پیڑ پہ ہے...
  11. فرخ منظور

    "مجید لاہوری" کے "نمکدان" سے کچھ نمک

    ہوٹلوں میں چھُپ کے پھر کھانے کا موسم آ گیا سارا دن روزے کو بہلانے کا موسم آ گیا پھر مری اور کوئٹے جانے کا موسم آ گیا لیڈروں کے "ٹور" فرمانے کا موسم آ گیا آ گیا پھر برف کا بھاؤ بڑھا دینے کا دَور چور بازاری کو چمکانے کا موسم آ گیا گھی بنے گا تیل سے، پانی سے بن جائے گا دودھ صنعتوں کو اوج پر لانے...
  12. فرخ منظور

    میر جدا جو پہلو سے وہ دلبر ِیگانہ ہوا ۔ میر تقی میر

    جدا جو پہلو سے وہ دلبرِ یگانہ ہوا طپش کی یاں تئیں دل نے کہ دردِ شانہ ہوا جہاں کو فتنہ سے خالی کبھو نہیں پایا ہمارے وقت میں تو آفتِ زمانہ ہوا خلش نہیں کسو خواہش کی رات سے شاید سرشک یاس کے پردے میں دل روانہ ہوا ہم اپنے دل کی چلے دل ہی میں لیے یاں سے ہزار حیف سرِ حرف اس سے وا نہ ہوا کھلا نشے...
  13. فرخ منظور

    میر دل جو زیرِ غبار اکثر تھا ۔ میر تقی میرؔ

    دل جو زیرِ غبار اکثر تھا کچھ مزاج ان دنوں مکدّر تھا اس پہ تکیہ کیا تو تھا لیکن رات دن ہم تھے اور بستر تھا سرسری تم جہان سے گذرے ورنہ ہر جا جہانِ دیگر تھا دل کی کچھ قدر کرتے رہیو تم یہ ہمارا بھی ناز پرور تھا بعد اِک عمر جو ہوا معلوم دل اس آئینہ رو کا پتھر تھا بار سجدہ ادا کیا تہِ تیغ کب سے...
  14. فرخ منظور

    کلاسیکی شعرا کے کلام سے انتخاب

    کس کی نگہ کی گردش، تھی میرؔ رُو بہ مسجد محراب میں سے زاہد مست و خراب نکلا (میر تقی میرؔ)
  15. فرخ منظور

    میر کب تلک یہ ستم اٹھائیے گا ۔ میر تقی میرؔ

    کب تلک یہ ستم اٹھائیے گا ایک دن یوں ہی جی سے جائیے گا شکلِ تصویرِ بے خودی کب تک کسو دن آپ میں بھی آیئے گا سب سے مل چل کہ حادثے سے پھر کہیں ڈھونڈا بھی تو نہ پایئے گا نہ موئے ہم اسیری میں تو نسیم کوئی دن اور باؤ کھایئے گا کہیے گا اس سے قصۂ مجنوں یعنی پردے میں غم سنایئے گا اس کے پابوس کی توقع...
  16. فرخ منظور

    میر بارہا گورِ دل جھنکا لایا ۔ میر تقی میرؔ

    بارہا گورِ دل جھنکا لایا اب کے شرطِ وفا بجا لایا قدر رکھتی نہ تھی متاعِ دل سارے عالم میں مَیں دکھا لایا دل کہ اِک قطرہ خوں نہیں ہے بیش ایک عالم کے سر بلا لایا سب پہ جس بار نےگِرانی کی٭ اُس کو یہ ناتواں اُٹھا لایا دل مجھے اس گلی میں لے جا کر اور بھی خاک میں ملا لایا ابتدا ہی میں مر گئے سب...
  17. فرخ منظور

    میر میر تقی میر کی ایک غزل - ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا

    راہ دورِ عشق سے روتا ہے کیا آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا قافلے میں صبح کے اک شور ہے یعنی غافل ہم چلے سوتا ہے کیا سبز ہوتی ہی نہیں یہ سر زمیں تخمِ خواہشِ دل میں تُو بوتا ہے کیا یہ نشانِ عشق ہیں، جاتے نہیں داغ چھاتی کے عبث دھوتا ہے کیا غیرتِ یوسف ہے یہ وقتِ عزیز میرؔ اس کو رائیگاں کھوتا ہے کیا...
  18. فرخ منظور

    میر تابہ مقدور انتظار کیا ۔ میر تقی میر

    تابہ مقدور انتظار کیا دل نے اب زور بے قرار کیا دشمنی ہم سے کی زمانےنے کہ جفا کار تجھ سا یار کیا یہ توہّم کا کارخانہ ہے یاں وہی ہے جو اعتبار کیا ایک ناوک نے اس کی مژگاں کے طائرِ سدرہ تک شکار کیا صد رگ ِجاں کو تاب دے باہم تیری زلفوں کا اک تار کیا ہم فقیروں سے بے ادائی کیا آن بیٹھے جو تم نے...
  19. فرخ منظور

    میر گُل کو محبوب ہم قیاس کیا ۔ میر تقی میرؔ

    گُل کو محبوب ہم قیاس کیا فرق نکلا بہت جو باس کیا دل نے ہم کو مثالِ آئینہ ایک عالم کا روشناس کیا کچھ نہیں سوجھتا ہمیں اُس بن شوق نے ہم کو بے حواس کیا عشق میں ہم ہوئے نہ دیوانے قیس کی آبرو کا پاس کیا دَور سے چرخ کے نکل نہ سکے ضعف نے ہم کو مور طاس کیا صبح تک شمع سر کو دھنتی رہی کیا پتنگے نے...
  20. فرخ منظور

    میر منہ تکا ہی کرے ہے جِس تِس کا ۔ میر تقی میرؔ

    منہ تکا ہی کرے ہے جِس تِس کا حیرتی ہے یہ آئینہ کس کا شام سے کچھ بجھا سا رہتا ہے دل ہوا ہے چراغ مفلس کا تھے بُرے مغ بچوں کے تیور لیک شیخ مے خانہ سے بھلا کھسکا داغ آنکھوں سے کھل رہے ہیں سب ہاتھ دستہ ہوا ہے نرگس کا قطعہ بحر کم ظرف ہے بسانِ حباب کاسہ لیس اب ہوا ہے تُو جس کا فیض اے ابر، چشمِ تر...
Top