آوارگانِ فطرت سے !
(1)
بتا بھی مجھ کو ارے ہانپتے ہوئے جھونکے
ارے او سینئہ فطرت کی آہِ آوارہ !
تری نظر نے بھی دیکھا کبھی وہ نطارہ
کہ لے کے اپنے جلو میں ہجوم اشکوں کے
کسی کی یاد جب ایوانِ دل پہ چھا جائے
تو اک خراب محبت کو نیند آ جائے
(2)
ابد کنار سمندر ! تری حسیں موجیں
الاپتی ہیں شب و روز کیسے...