مصطفیٰ زیدی قدم قدم پہ تمنائے التفات تو دیکھ ۔ مصطفیٰ زیدی

فرخ منظور

لائبریرین
قدم قدم پہ تمنائے التفات تو دیکھ
زوال ِ عشق میں سوداگروں کا ہات تو دیکھ

بس ایک ہم تھے جو تھوڑا سا سر اٹھا کے چلے
اسی روش پہ رقیبوں کے واقعات تو دیکھ

غم ِ حیات میں حاضر ہوں لیکن ایک ذرا
نگار ِ شہر سے میرے تعلقات تو دیکھ

خود اپنی آنچ میں جلتا ہے چاندنی کا بدن
کسی کے نرم خنک گیسوؤں کی رات تو دیکھ

عطا کیا دل ِ مضطر تو سی دئیے میرے ہونٹ
خدائے کون و مکاں کے تواہمات تو دیکھ

گناہ میں بھی بڑے معرفت کے موقعے ہیں
کبھی کبھی اسے بےخدشۂ نجات تو دیکھ

(مصطفیٰ زیدی)

مَوج مِری صدف صدف
 
Top