مصطفیٰ زیدی ایک علامت ۔ مصطفیٰ زیدی

فرخ منظور

لائبریرین
ایک علامت
(مصطفیٰ زیدی کا سعادت حسن منٹو کے لیے خراجِ عقیدت)

گھاس سے بچ کے چلو ریت کو گلزار کہو
نرم کلیوں پہ چڑھا دو غمِ دوراں کے غلاف
خود کو دل تھام کے مُرغانِ گرفتار کہو
رات کو اس کے تبسّم سے لپٹ کر سو جاؤ
صبح اُٹھو تو اسے شاہدِ بازار کہو
ذہن کیا چیز ہے جذبے کی حقیقت کیا ہے
فرش پر بیٹھ کے تبلیغ کے اشعار کہو

اسی رفتار سے چلتا ہے جہانِ گذراں
انہی قدموں پہ زمانے کے قدم اٹھتے ہیں
کوئی عینک سے دکھاتا ہے تو ہم دیکھتے ہیں
کوئی کاندھوں پہ اٹھاتا ہے توہم اُٹھتے ہیں
ایک رقاصۂ طنّاز کی محفل ہے جہاں
کبھی آتے ہیں بھتیجے کبھی عَم اُٹھتے ہیں
کبھی اک گوشۂ تاریک کے ویرانے میں
کسی جگنو کے چمکنے پہ فغاں ہوتی ہے
کبھی اس مرحمتِ خاص کا اندازہ نہیں
کبھی دو بوند چھلکنے پہ فغاں ہوتی ہے
کبھی منزل کے تصور سے جگر جلتے ہیں
کبھی صحرا میں بھٹکنے پہ فغاں ہوتی ہے

ہم نے اس چور کو سینوں میں دبا رکھا ہے
ہم اسی چور کے خطرے سے پریشان بھی ہیں
کون سمجھے گا اس سطحِ خوش آواز کے بعد
اسی ٹھہرے ہوئے تالاب میں طوفان بھی ہیں
بھائی کی آنکھ کے کانٹے پہ نظر ہے سب کی
دیوتا بھی ہیں اسی بزم میں انسان بھی ہیں
خطِ سرطان سے آتی ہے مِلر کی آواز
اور امریکہ کے بازار میں کھو جاتی ہے
جائس کی فکر نے تعمیر کیا ہے جس کو
وہ زمیں حسرتِ معمار میں کھو جاتی ہے
کبھی منٹو کا قلم بن کے دہکتی ہے حیات
کبھی سرمائے کی تلوار میں کھو جاتی ہے

ہر پیمبر پہ ہنسا ہے یہ زمانہ لیکن
ہر پیمبر نے جھکائی ہے زمانے کی جبیں
اپنے ہم عصر سے خائف نہ ہو اے وقت کی آنچ
اس کی مٹی میں ستاروں کا دھواں ہے کہ نہیں



اسی مٹی سے دمکتی ہے یہ دھرتی ورنہ
’’درد یک ساغرِ غفلت ہے چہ دنیا چہ دیں‘‘

جسم کے داغ چھپانا تو کوئی بات نہیں
روح کے زخم سلگتے ہیں پسِ پردۂ دل
سر چھپا لیتے ہو تم ریت میں جس کے آگے
اسی طوفان میں گھر جاتے ہیں لاکھوں ساحل
ایک راہی جسے احساس نہ حسرت نہ طلب
اک سفر جس میں نہ منزل نہ سراغِ منزل

اپنی حسّاس سُبک ناک سے رومال ہٹاؤ
کھاد میں محض تعفُّن ہی نہیں، خیز بھی ہے
ذوق درکار ہے قطرے کو گہرکرنے میں
یہ مئے ناب پراسرار بھی ہے تیز بھی ہے
کچھ تو ہے وجہِ دل آزاری و آہنگ و ستیز
ورنہ یہ طبع خوش اخلاق و کم آمیز بھی ہے
شہر کی تِیرہ و تاریک گزر گاہوں میں
داستاں ہوگی تو منٹو کا قلم لکھے گا
زیست قانون و فرامینِ قفس کے آگے
بے زباں ہوگی تو منٹو کا قلم لکھے گا
اس شفاخانۂ اخلاق میں نشتر کے قریب
رگِ جاں ہوگی تو منٹو کا قلم لکھے گا

گوپی ناتھ اور ظفر شاہ کے جیسے کردار
کتنی گمنامی میں جی لیتے ہیں، مر جاتے ہیں
کس نے ان آنکھوں میں وہ خواب لہکتے دیکھے
جو اس انسانوں کے جنگل میں بکھر جاتے ہیں
کس کا آئینہ ہے موذیل کی اس روح کا عکس
جس میں مریم کے حسیں نقش نکھر جاتے ہیں

اے نئے عصر کی رگ رگ کو سمجھنے والے
فہم و ادراک بدی ہیں تو بدی تیری ہے
چند لمحوں کی خدائی ہے روایات کے ساتھ
فن کے آدرش کی روحِ ابدی تیری ہے
موت یہ صرف سعادت کی ہے منٹو کی نہیں
یہ شب و روز ترے ہیں، یہ صدی تیری ہے


انتخاب، مجموعہ:’موج مری صدف صدف‘ : مطبوعہ 1960ء
 
Top