غزل
صَبا میں مست خِرامی گُلوں میں بُو نہ رہے
تِرا خیال اگر دِل کے رُو برُو نہ رہے
تیرے بغیر ہر اِک آرزُو ادھُوری ہے
جو تُو مِلے تو، مجھے کوئی آرزُو نہ رہے
ہے جُستجوُ میں تِری اِک جہاں کا درد و نِشاط
تو کیا عجب کہ، کوئی اور جُستجُو نہ رہے
تِری طَلب سے عبارت ہے میری سوز و حیات
ہو سرد...
غزل
شفیق خلؔش
ا گر نہ لُطف دِل و جاں پہ بے بہا ہوگا
تو اِضطِراب ہی بے حد و اِنتہا ہوگا
خُدا ہی جانے، کہ درپیش کیا رہا ہوگا
ہمارے بارے اگر اُس نے یہ کہا ہوگا
ہُوا نہ مجھ سے جُدائی کے ہر عذاب کا ذکر !
اِس اِک خیال سے، اُس نے بھی یہ سہا ہوگا
خیال آئے بندھی ہچکیوں پہ اس کا ضرور
کسی بہانے ہمیں...
غزل
شفیق خلشؔ
اپنی مرضی سے گو نہیں آئے
رونا قسمت کا رو نہیں آئے
دُوری اِک عارضی تقاضہ تھی
اُن سے ہم ہاتھ دھو نہیں آئے
دِل کی بربادی کا سَبب ہیں وہی
کہہ کے آنے کا، جو نہیں آئے
یار مطلُوب تھے جو کاندھے کو !
دو ہی پہنچے تھے، دو نہیں آئے
بندھ ٹوٹیں گے ضبط کے سارے
یہ ہَمَیں ڈر تھا، سو نہیں آئے...
غزل
لاحق اگرچہ پہلی سی وہ بیکلی نہیں !
لیکن ملال و حُزن کی صُورت بَھلی نہیں
ہیش اُن کے، سچ یہی ہے کہ اپنی گلی نہیں
کوشش ہزار کی، مگر اِک بھی چلی نہیں
درپے ہے جاں کی اب بھی خیالوں میں وہ پری
جس کے شباب کی ذرا رنگت ڈھلی نہیں
کب دِل میں میرے عزمِ مُصمّم کے زور پر
نِسبت سے اُن کی اِک نئی...
غزل
ضیاؔ جالندھری
چاند ہی نِکلا، نہ بادل ہی چَھما چَھم برسا
رات دِل پر، غَمِ دِل صُورتِ شبنم برسا
جلتی جاتی ہیں جَڑیں، سُوکھتے جاتے ہیں شَجر
ہو جو توفیِق! تو آنسو ہی کوئی دَم برسا
میرے ارمان تھے برسات کے بادل کی طرح
غُنچے شاکی ہیں کہ، یہ ابر بہت کم برسا
پے بہ پے آئے، سجل تاروں کے...
غزل
جُدا زمانے سے ایجاد کیوں نہیں کرتے
سُخن گو اب نیا اِرشاد کیوں نہیں کرتے
خیال آئے ہمیں یاد کیوں نہیں کرتے
بَہَم کرَم وہ پری زاد کیوں نہیں کرتے
تَشفّی دِل کی میسّر کہاں ہے ظالم کو !
یہ اِضطراب، کہ فریاد کیوں نہیں کرتے
ہزاروں وسوَسے خود میں ہو یہ سوال لیے
ہم اُن سے شکوۂ بیداد کیوں نہیں...
غزل
کرب چہرے کا چھپاتے کیسے
پُر مُسرّت ہیں جتاتے کیسے
ہونٹ بھینچے تھے غَم و رِقَّت نے
مسکراہٹ سی سجاتے کیسے
بعد مُدّت کی خبرگیری پر
اشک آنکھوں کے بچاتے کیسے
دوستی میں رہے برباد نہ کم !
دشمنی کرتے نبھاتے کیسے
درد و سوزش سے نہ تھا آسودہ
دِل تصور سے لُبھاتے کیسے
اِک قیامت سی بَپا حالت میں...
غزل
وفورِ عِشق سے بانہوں میں بھر لیا تھا تمھیں
اگرچہ عُمر سے اِک دوست کر لیا تھا تمھیں
رَہے کچھ ایسے تھے حالات، مَیں سمجھ نہ سکا!
پِھر اُس پہ، عِشق میں بھی سہل تر لیا تھا تمھیں
کسی بھی بات کا کیونکر یقیں نہیں تھا مجھے
خُدا ہی جانے، جو آشفتہ سر لیا تھا تمھیں
اگرچہ مشورے بالکل گراں نہیں...
غزل
شاید کہِیں بھی ایسا اِک آئینہ گر نہ ہو
اپنے ہُنر سے خود جو ذرا بَہرہ وَر نہ ہو
شاعِر کے ہر لِکھے کا مَزہ خُوب تر نہ ہو
اپنی سُخن وَرِی میں اگر دِیدَہ وَر نہ ہو
جانے کہاں گئی مِری ترغِیبِ زندگی
جس کے بِنا حَیات یہ جیسے بَسر نہ ہو
سَیر و صَبا کے جَھونکوں کی اُمّید اب نہیں
طاری اِک ایسی...
غزل
وَسوَسوں کا اُنھیں غلبہ دینا!
چاہیں سوچوں پہ بھی پہرہ دینا
وہ سلاسل ہیں، نہ پہرہ دینا
چاہے دِل ضُعف کو تمغہ دینا
ٹھہری شُہرت سے حَسِینوں کی رَوِش!
حُسن کے سِحْر سے دھوکہ دینا
خود کو دینے سا تو دُشوار نہیں
اُن کا ہر بات پہ طعنہ دینا
بُھولے کب ہیں رُخِ مہتاب کا ہم !
اوّل اوّل کا وہ...
غزل
کب گیا آپ سے دھوکہ دینا
سب کو اُمّید کا تحفہ دینا
چاند دینا، نہ سِتارہ دینا
شَبْ بَہرطَور ہی تِیرَہ دینا
سَبقَت اِفْلاس سے قائِم وہ نہیں
ہے اَہَم پیار سے پَیسہ دینا
در بَدر ہونا وہ کافی ہے ہَمَیں
اب کوئی اور نہ نقشہ دینا
ماسِوا یار کے، جانے نہ کوئی
دلِ بے خوف کو خدشہ دینا
کم...
غزل
تیرے حُسن و جمال تک پُہنچا
میں بھی، کتِنے کمال تک پُہنچا
بعد مُدّت کے ذہنِ آشُفتہ !
ایک نازُک خیال تک پُہنچا
اے مِرے شَوقِ بے مِثال! مجھے
آج، اُس بے مِثال تک پُہنچا
اِک زوالِ عرُوج سے ہو کر
مَیں عرُوجِ زوال تک پُہنچا
ذہْن آزاد ہو گیا میرا
جب یَقِیں اِحتمال تک پُہنچا
تذکرہ حُسن کے...
غزل
جون ایلیا
اِک ہُنر ہے جو کر گیا ہُوں مَیں
سب کے دِل سے اُتر گیا ہُوں مَیں
کیسے اپنی ہنسی کو ضبط کرُوں!
سُن رہا ہُوں کہ گھر گیا ہُوں مَیں
کیا بتاؤں کہ مر نہیں پاتا
جیتے جی جب سے مر گیا ہُوں مَیں
اب ہے بس اپنا سامنا در پیش
ہر کسی سے گزر گیا ہُوں مَیں
وہی ناز و ادا وہی غمزے
سر بہ...
غزل
اقبال عظیم
آپ میری طبیعت سے واقف نہیں، مُجھ کو بے جا تکلّف کی عادت نہیں
مُجھ کو پُرسِش کی پہلے بھی خواہش نہ تھی، اور پُرسِش کی اب بھی ضرُورت نہیں
یُوں سَرِ راہ بھی پُرسِشِ حال کی، اِس زمانے میں فُرصت کسی کو کہاں!
آپ سے یہ مُلاقات رسمی سَہِی، اِتنی زحمت بھی کُُچھ کم عِنایت نہیں
آپ...
غزل
بشر نواز
آہَٹ پہ کان، در پہ نَظر اِس طرح نہ تھی
ایک ایک پَل کی ہم کو خَبر اِس طرح نہ تھی
تھا دِل میں درد پہلے بھی، لیکن نہ اِس قدر
وِیراں تو تھی حَیات، مگر اِس طرح نہ تھی
ہر ایک موڑ، مقتلِ ارمان و آرزُو!
پہلے تو، تیری راہ گُزر اِس طرح نہ تھی
جب تک صَبا نے، چَھیڑا نہ تھا نِکہَتِ گُلاب...
غزل
شفیق خلشؔ
کہنے کا زور و شور سے اُن پر اثر نہ ہو
سُن کر بھی یُوں رہیں وہ کہ جیسے خبر نہ ہو
شرمِندۂ عَمل ہُوں کہ صرفِ نظر نہ ہو
دِل سے وہ بے بسی ہے کہ صُورت دِگر نہ ہو
کوشش رہے اگرچہ، کوئی لمحۂ حیات!
خود میں خیال اُن کا لیے جلوہ گر نہ ہو
اِک اِلتماس تجھ سے بھی ایّامِ خُوب رفت!
صُحبت...
غزل
جلیل حسن جلیؔل
چال سے فتنۂ خوابیدہ جگاتے آئے!
آپ، جب آئے قیامت ہی اُٹھاتے آئے
نالۂ گرم نے، اِتنا نہ کِیا تھا رُسوا
اشک کمبخت تو، اور آگ لگاتے آئے
دِل کو مَیں اُن کی نِگاہوں سے بچاتا، کیونکر
دُور سے، تِیر نِشانے پہ لگاتے آئے
آئے ہم سُوئے قَفس ، چھوڑ کے جب گُلشن کو
آہ سے آگ نشیمن میں...
غزل
لُبھاتا ہے اگرچہ حسُنِ دریا، ڈر رہا ہُوں مَیں
سَبب یہ ہے کہ ، اِک مُدّت کنارے پر رہا ہُوں مَیں
یہ جھونکے، جن سے دِل میں تازگی، آنکھوں میں ٹھنڈک ہے
اِنھی جھونکوں سے، مُرجھایا ہُوا شب بھر رہا ہُوں مَیں
تیرے آنے کا دن ہے، تیرے...
غزل
عذاب ترکِ تعلّق پہ کم سہا ہوگا
وہاں بھی سَیل سا اشکوں کا یُوں بہا ہوگا
یہ دِل شکنجئہ وحشت سے کب رہا ہوگا
کب اِختتامِ غَمِ ہجرِ مُنتَہا ہوگا
جہاں کہیں بھی وہ عُنوانِ گفتگو ٹھہرا!
وہاں پہ ذکر ہمارا بھی بارہا ہوگا
ہَوائے شب عِطرآگِیں تھی، اس پہ کیا تکرار
وُرُودِ صُبح پہ دِل نے تو کُچھ کہا...
غزل
فِراق گورکھپُوری
تِرا جمال بھی ہے آج، اِک جہانِ فِراق
نِگاہِ لُطف و کرم خود ہے تر جمانِ فِراق
فضا جہانِ محبّت کی جِن سے تھی رنگِیں
تجھے بھی یاد کچھ آئے وہ، شادمانِ فِراق
نظر بچا کے جنھیں برقِ حُسن چھوڑ گئی
مِلے نہ زخمِ نہاں میں بھی وہ نشانِ فِراق
نِگاہِ ناز تِری تھی تمام قَول و قَسَم
کسی...