چاہت میں کیا دنیا داری، عشق میں کیسی مجبوری
لوگوں کا کیا، سمجھانے دو، ان کی اپنی مجبوری
میں نے دل کی بات رکھی اور تونے دنیا والوں کی
میری عرض بھی مجبوری تھی، ان کا حکم بھی مجبوری
روک سکو تو پہلی بارش کی بوندوں کو تم روکو
کچی مٹی تو مہکے گی، ہے مٹی کی مجبوری
ذات کدے میں پہروں باتیں اور ملیں...
آئے ہو ایک مہینہ سے، جانے کی بھی کہو
زندہ مجھے رہنے دو، مجھ پر کرم کرو
کر ڈالا ہے کچن مرا خالی، جناب نے
کھاتے ہو تم نصیب، تو اپے ہی گھر مرو
(فاخرہ بتول)
تمہارے شہر کا موسم بڑا سہانا لگے
میں ایک شام چرالوں اگر برا نہ لگے
تمہارے بس میں اگر ہے تو بھول جاؤ ہمیں
تمہیں بھلانے میں شاید ہمیں زمانہ لگے
جو ڈوبنا ہے تو اتنے سکون سے ڈوبو
کہ آس پاس کی لہروں کو بھی پتہ نہ لگے
اسی لئے تو کھلائے ہیں پھول صفحوں پر
ہمیں جو زخم لگے ہیں وہ دوستانہ لگے
وہ اک...
وفا کا عہد تھا دل کو سنبھالنے کے لئے
وہ ہنس پڑے مجھے مشکل میں ڈالنے کے لئے
بندھا ہوا ہے بہاروں کا اب وہیں تانتا
جہاں رکا تھا میں کانٹے نکالنے کے لئے
کوئی نسیم ا نغمہ، کوئی شمیم کا راگ
فضا کو امن کے قالب میں ڈھالنے کے لئے
خدا نکردہ زمین پاؤں سے اگر کھسکی
بڑھیں گے تند بگولے سنبھالنے کے لئے...
دیار نور میں تیرہ شبوں کا ساتھی ہو
کوئی تو ہو جو مری وحشتوں کا ساتھی ہو
میں اس سے جھوٹ بھی بولوں تو مجھ سے سچ بولے
مرے مزاج کے سب موسموں کا ساتھی ہو
میں اس کے ہاتھ نہ آؤں وہ میرا ہو کے رہے
میں گر پڑوں تو میری پستیوں کا ساتھی ہو
وہ مرے نام کی نسبت سے معتبر ٹھہرے
گلی گلی میری رسوائیوں کا...
بدلے ہوئے حالات سے ڈر جاتا ہوں اکثر
شیرازۂ ملت ہوں، بکھر جاتا ہوں اکثر
میں ایسا سفینہ ہوں کہ ساحل کی صدا پر
طوفان کے سینے میں اتر جاتا ہوں اکثر
میں موت کو پاتا ہوں کبھی زیرِ کفِ پا
ہستی کے گماں سے بھی گزر جاتا ہوں اکثر
مرنے کی گھڑی آئے تو میں زیست کا طالب
جینے کا تقاضا ہو تو مرجاتا ہوں...
کہ باز آید پشیمانی
جب ہوئے وہ
تہی داماں
ان کا یہ خیال آیا
زندگی کے کرنے کو
زندگی کو برتنے کو
الفتیں ضروری ہیں
پر خاک ہوگئی تھیں
محبتیں تب تک
(شگفتہ شفیق)
اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر
حالات کی قبروں کے کتبے بھی پڑھا کر
کیا جانیئے کیوں تیز ہوا سوچ میں گم ہے؟
خوابیدہ پرندوں کو درختوں سے اڑا کر
اس شخص کے تم سے بھی مراسم ہیں تو ہونگے
وہ جھوٹ نہ بولے گا میرے سامنے آکر
اب دستکیں دے گا تو کہاں اے غمِ احباب
میں نے تو کہا تھا کہ مرے دل میں...
آنسو بہت کمال کی چیز ہوتے ہیں۔ دیکھنے میں بہت شفاف نظر آتے ہیں حالانکہ پتا نہیں کتنا میل، کتنا کھوٹ، کتنا پچھتاوا یہ اپنے ساتھ بہا کر لے جارہے ہوتے ہیں۔
(عمیرہ احمد کے ناول ’’بس ایک داغ ندامت‘‘ سے اقتباس)
اس درد کی دنیا سے گزر کیوں نہیں جاتے
یہ لوگ بھی کیا لوگ ہیں مر کیوں نہیں جاتے
ہے کون زمانے میں مرا پوچھنے والا
ناداں ہیں جو کہتے ہیں کہ گھر کیوں نہیں جاتے
شعلے ہیں تو کیوں ان کو بھڑکتے نہیں دیکھا
ہیں خاک تو راہوں میں بکھر کیوں نہیں جاتے
آنسو بھی ہیں آنکھوں میں دعائیں بھی ہیں لب پر
بگڑے...
لوگوں کے لئے وہ باہر بہتی بارش کا پانی تھا جس نے میرے گال بھگودیئے تھے۔ اچھا ہی ہے کہ قدرت نے بارش کے پانی یا آنسوؤں میں سے کسی ایک کا رنگ جدا تخلیق نہیں کیا تھا ورنہ شاید میرے لئے جواب دینا مشکل ہوجاتا۔ کاش سبھی رونے والوں کے سروں پر کوئی بادل آکر برس جایا کرتا تو ہم میں سے بہتوں کا بھرم باقی...
اُسے ہم یاد آتے ہیں فقط فرصت کے لمحوں میں
مگر یہ بھی سچ ہے ۔۔۔۔۔ اُسے فرصت نہیں ملتی
(احمد فراز)
۔۔۔۔۔۔
ہم تسلیم کرتے ہیں، ہمیں فرصت نہیں ملتی
مگر جب یاد کرتے ہیں، زمانے بھول جاتے ہیں
(پروین شاکر)
کوئی مجھ کو مرا بھرپور سراپا لادے
مرے بازو، مری آنکھیں، مرا چہرہ لادے
ایسا دریا جو کسی اور سمندر میں گرے
اس سے بہتر ہے کہ مجھ کو مرا صحرا لادے
کچھ نہیں چاہئے تجھ سے اے مری عمرِ رواں
مرا بچپن، مرے جگنو، مری گڑیا لادے
جس کی آنکھیں مجھے اندر سے بھی پڑھ سکتی ہوں
کوئی چہرہ تو مرے شہر میں...
بہت رویا وہ ہم کو یاد کرکے
ہماری زندگی برباد کرکے
پلٹ کر پھر یہیں آجائیں گے ہم
وہ دیکھے تو ہمیں آزاد کرکے
رہائی کی کوئی صورت نہیں ہے
مگر ہاں منتِ صیاد کرکے
بدن میرا چھوا تھا اُس نے لیکن
گیا ہے روح کو آباد کرکے
ہر آمر طول دینا چاہتا ہے
مقرر ظلم کی میعاد کرکے
(پروین شاکر)
شیطان سب سے اچھا فرشتہ تھا مگر برا تب بنا جب وہ بول پڑا۔ اسی لئے پیدا ہونے والے بچے فرشتے ہوتے ہیں کیونکہ انہیں بولنا نہیں آتا۔ اور جونہی وہ فرافر بولنے لگتے ہیں ماں باپ کہتے ہیں یہ شیطان ہوگئے ہیں۔
(’’شیطانیاں‘‘ از ڈاکٹر یونس بٹ سے اقتباس)